نافرمان بچوں سے نمٹنے کا طریقہ ۔ فرح رضوان
قریباً گیارہ سال کے بعد سے اکثر بچوں میں ضد، غصہ، من مانی، ہٹ دھرمی جنم لینا یا بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ بات بات پر روتے یا بحث کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ والدین ان کی اصلاح کی خاطر ان کو ٹوکتے بھی ہیں ڈانٹتے اور سزا بھی دیتے ہیں۔ کبھی تو یہ طریقہ بہت اچھا کام کر جاتا ہے لیکن کہیں الٹا ری ایکشن ہی دیکھنے میں آتا ہے، تب والدین کو پیروں تلے زمین سرکتی اور مٹھی میں سے ریت پھسلتی محسوس ہوتی ہے۔
بڑھتی عمر کے بچوں کے اس تحفے کو سائنس یا بائیولوجی ہارمونز کی تبدیلی کہیے یا کچھ اور، لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گزرے کل کا ایک کمزور ناسمجھ بچہ آنے والے کل میں جو طاقت، شعور اور صلاحیتوں کا سرچشمہ بننے چلا ہے، جس کے ذریعے وہ ڈھیروں نیکیاں سمیٹ کر جنت کا حقدار بن سکتا ہے۔ انگنت افراد کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بھی بن سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمانوں کے لیے شفاعت کا ذریعہ بھی۔ تو شیطان، جو انسان کا ازلی دشمن ہے وہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ ابن آدم آسانی سے یہ مقام حاصل کرلے۔ ہم تو بھول جاتے ہیں لیکن شیطان اپنے وعدے کو نہیں بھولتا جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا تھا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کر کے دم لے گا۔
دنیا بھر میں، لیڈرز، سیاسی تنظیمیں وغیرہ ہمیشہ اپنا فوکس یوتھ پر اسی لیے تو مرکوز رکھتی ہیں کہ ناسمجھی کے باعث ان کی ذہن سازی کرنا سہل اور ان میں موجود جوش، پھرتی، کچھ کر دکھانے کی تمنا کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور یوں پختہ عمر ہو جانے کے باوجود بھی یہ وہی سوچتے ہیں جس کا بیج نوعمری میں ان کے ذہنوں میں بویا گیا تھا…. تو بھلا شیطان کیوں اس کام میں پیچھے رہ سکتا ہے وہ اپنی پوری فوج کے ساتھ ان نوعمر بچوں پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ بچہ مقابلے کے لیے تنہا ہوتا ہے بلکہ فرشتے بھی بچے کی حفاظت پر معمور ہوتے ہیں، اور اس کا ضمیر بھی نفس سے جنگ میں اس کی مدد کرتا ہے۔ اسی جنگ و جدل کی وجہ سے اکثر اوقات نوعمر بچے یا تو اچانک بہت سرد مہری کا شکار ہو کر خاموش اور ڈبو ہوجاتے ہیں یا بہت گرم مزاج، غصیل اور ڈھیٹ۔
مسلسل اور شدید برفباری میں گھروں کے باہر چمنیوں سے جب اچانک بپھرا ہوا دھواں نکلتا ہے تو تسلسل سے برستے روئی سے گالے کچھ دیر کو اس افتاد کے سبب تتر بتر ہو کر رہ جاتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر ایسے ہی سر پھرے، مونہہ پھٹ، غیظ و غضب سے پھنکارتے ٹین ایجر کا خیال آتا ہے کیونکہ بالکل اسی طرح کی ایک مسلسل جنگ ان کے اندر بھی چل رہی ہوتی ہے۔ نیکی اور بدی کے مابین۔
اس پریشانی کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے لیکن عموماً بچے کیونکہ بات کرنے سے ہی کترانے لگتے ہیں لہٰذا ان کے پیچھے پڑنے سے بہتر، اس کا سادہ آسان اور آزمودہ نسخہ ہے، انہیں قصے اور کہانیاں سنانا۔ جو انتہائی دلچسپ بھی ہوں اور ان کے کرداروں کے حالات بچے سے ملتے جلتے بھی ہوں، ساتھ ہی مختلف نوعیت کے مسائل اور ان کا درست اور قابل عمل حل بھی ان قصوں میں موجود ہو تو ان شا اللہ بہت جلد بچے میں بہتری نظر آئے گی۔ ساتھ ہی والدین کو ہمت، حکمت، صبر، نرمی، درگذر، توکل اور امید کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اکثروالدین کو اپنے بچوں کی عاقبت اور اللہ تعالیٰ یا اپنے جاننے والوں کے سامنے اپنی جوابدہی کی شدید فکر لاحق ہوتی ہے۔ والدین کا احساس ذمہ داری اپنی جگہ انتہائی اہم ہے، لیکن انہیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو اذیت نہیں پہنچنی چاہیے، اور آپ کا بچہ بھی ایک مسلمان ہے۔ اولاد ضرور آپ ہی کی سہی لیکن امانت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن اگر یہ کہتا ہے کہ اپنی اولاد کو جہنم سے بچاؤ تو اسی قرآن کا درس یہ بھی تو ہے کہ کوئی آپ سے برا سلوک روا رکھے تب بھی آپ بہترین اخلاق کا مظاہرہ کریں، یوں اس کا دل آپ کی جانب کھنچا چلا آئے گا اور وہ آپ کا بہترین گرمجوش دوست بن جائے گا۔ حدیث سکھاتی ہے کہ جو نرمی سے محروم رہا وہ ہر خیر سے محروم رہ گیا۔ جبکہ رویوں میں نرمی زینت کا باعث بنتی ہے۔ اور اگر لگتا ہے کہ اب آپ کی اولاد بالکل ہاتھوں سے ہی نکل گئی تب بھی یہ حوصلہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رعایت دی ہے کہ زمین سے آسمان تک گناہ کیے ہوں اور پھر بھی شرک نہ کیا ہو تو اگر وہ چاہے تو بخش دے گا اور آج یہ یاد رکھنا نہایت ضروری اس لیے ہے کہ خدانخواستہ آپ کی بار بار کی سرزنش کے رد عمل کے طور پر بچہ کفریہ کلمات اور خیالات کا شکار نہ ہو جائے۔
لہٰذا سب سے پہلے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا آپ نے اپنی اولاد کو واپس درست راستے پر لانے کے لیے حالات اور بچے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے درست حکمت عملی اختیار کی ہے یا صرف خوف کے ہاتھوں انزایٹی، غصے اور چیخ و پکار کا شکار ہو کر بچے کو ہر وقت ٹوکنے، ڈانٹنے، باز پرس کرنے، ڈرانے دھمکانے، کوسنے اور بلآخر زچ ہو کر رہ جانے میں مبتلا ہوگئے ہیں؟
پہلی قسم کے والدین کو دعا اور صبر کے ساتھ امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیے جبکہ سخت رویے کے حامل والدین کو بہت سی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے اور خود کو آرگنائز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اگر آپ کو اندازہ ہے کہ دین کے معاملے میں آپ سے بھی بہت کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں تو توبہ کر کے اپنے رب کو منانے میں ذرا دیر نہ کریں، اور اگر آپ کو گمان ہے کہ آپ بہت نیک بندے ہیں تب بھی توبہ تو لازم ہے ہی، ساتھ ہی حوصلہ رکھیں کہ یہ پریشانی آپ کے لیے آزمائش بھی ہوسکتی ہے، ممکن ہے کہ ان تکالیف کو جھیلنے اور ان پر صبر کے بعد اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔