نبی کی رحمت نبی کی معرفت ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ روز قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کی امت یعنی مسیحیوں کے شرک کے متعلق یہ پوچھا جائے گا کہ کیا حضرت عیسیٰ نے ان سے کہا تھا کہ وہ ان کو اور ان کی والدہ کو اللہ کے ساتھ معبود بنالیں۔ اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ صاف صاف کہہ دیں گے کہ انھوں نے ساری زندگی توحید خالص ہی کی دعوت دی تھی۔ یوں گویا حضرت عیسیٰ کی یہ گواہی مسیحی حضرات کے خلاف پوری حجت قائم کر دے گی کہ ان کا شرک کرنا اور حضرت عیسیٰ سے مدد و استعانت کا تعلق رکھنا ان کی اپنی گمراہی تھی۔
حضرت عیسیٰ اپنی اس گواہی کے بعد ایک اضافی جملہ اور فرماتے ہیں جو بڑا ہی معنی خیز ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پروردگار تو اگر میری امت کے ان مسیحیوں کو عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں ۔ اور اگر تو ان کو معاف کر دے تو، تو زبردست بادشاہ بھی ہے اور بڑا حکیم بھی ہے۔
یہ جملہ بیک وقت ایک نبی کی رحمت اوراس کی معرفت کا بڑا خوبصورت بیان ہے۔ نبی اپنی امت کے لیے ایک باپ کی طرح شفیق ہوتا ہے۔ اولاد کیسی بھی ہو باپ بہرحال باپ ہوتا ہے۔ خاص کر جب وہ مشکل میں آجائے تو انسان اپنی اولاد کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ یہاں یہ حال تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی گواہی نے مسیحیوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔ اس کے بعد ان کی نجات کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا تھا۔
چنانچہ رحم کی ایک آخری درخواست کے طور پر حضرت عیسیٰ نے بڑے کمال طریقے سے اللہ کی رحمت اور قدرت کو اپیل کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ عذاب کے مستحق تو ہو چکے ہیں، اب آپ انہیں اگر عذاب دیں گے تو میں بیچ میں بولنے والا کون ہوں۔ میرے لیے تو یہ بس امتی ہیں ، مگر آپ کے تو بندے ہیں۔ اور رب کو اپنے بندوں سے سب سے بڑھ کر محبت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ ان کو معاف کر دیں تو آپ زبردست بادشاہ ہیں۔ آپ سے کون پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے کسی کو کیوں معاف کر دیا۔ اور بات کسی حکمت ہی کی ہے تو سب سے بڑھ کر آپ حکیم ہیں ۔ کوئی نہ کوئی راستہ آپ ان کے لیے ڈھونڈ سکتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ نے انتہائی اجمال کے ساتھ اور تمام تر آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی امت کو بچانے کے لیے یہ آخری الفاظ ادا کیے ہیں جو بلاشبہ معرفت کے الفاظ ہیں۔ انھوں نے کوئی سفارش نہیں کی کہ کسی مشرک کی سفارش کا الزام ان پر آجائے۔ مگر سفارش کے لیے جو ممکنہ طور پر موثر ترین اپیل خدا کی رحمت اور قدرت کی بارگاہ میں کی جا سکتی ہے ، وہ کی ہے۔
تاہم یہ واضح رہے کہ اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اُس روز صرف صدق و سچائی ہی انسان کو نفع دے گی۔ یہی سچائی جنت کے بدلے کا انسان کو حقدار بنادے گی۔ اس لیے کوئی جھوٹا اور خاص کر شرک کا جھوٹ بولنے والا اس روز کسی بھلائی کی توقع نہ رکھے۔ ان کے لیے جنت کی کوئی امید نہیں ہے۔ باقی آسمان و زمین اور ان میں موجود ہر چیز کی بادشاہی اور ملکیت اللہ کی ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کو جنت میں تو نہیں بھیجا جا سکتا۔ باقی جو فیصلہ اللہ تعالیٰ لینا چاہیں وہ لے سکتے ہیں۔ سورہ انعام (128:6)، سورہ ہود (107:11) اور بعض دیگر مقامات کے اشارات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ فیصلہ غالباً یہ ہو گا کہ ایک انتہائی طویل مدت گزرنے کے بعد ایسے مجرموں کو جہنم سمیت فنا کر دیا جائے گا۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی انتہائی رحمت کا ظہور ہو گا اور ساتھ میں اس حقیقت کا اظہار بھی کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے اصلاً نیک لوگوں کی تلاش کے لیے بنائی تھی۔ دنیا کا یہ کارخانہ جنتی کردار کے لوگوں کی پروڈکشن کے لیے لگایا گیا ہے۔ اہل جہنم اس عمل کا بائی پروڈکٹ ہیں۔ چنانچہ محسوس ہوتا ہے کہ آخر کار اس بے کار بائی پروڈکٹ کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے گا۔