سورہ ص کے دو کردار ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورہ ص (38) میں حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ ان کے پاس دو لوگ دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور ایک مقدمہ پیش کیا۔ ان میں سے ایک شخص کے پاس ننانوے دنبیاں تھیں اور دوسرے کے پاس فقط ایک۔ جس کے پاس ننانوے دنبیاں تھیں اس نے دوسرے کو اپنی باتوں سے دبا لیا اور اس سے یہ مطالبہ کیا کہ اپنی اکلوتی دنبی بھی اس کے حوالے کر دے۔ حضرت داؤد نے بلاتامل اس شخص کو غلطی کا مرتکب ٹھہرایا جس نے دوسرے کی اکلوتی دنبی بھی مانگ لی تھی۔ مگر یہ کہتے ہوئے انھیں اندازہ ہوگیا کہ اس واقعے سے اللہ تعالیٰ نے ان کی توجہ کسی ایسے معاملے کی طرف مبذول کرائی ہے جہاں وہ درست جگہ پر نہیں رہے تھے۔ چنانچہ وہ فوراً متنبہ ہوئے اور اللہ سے درگزر کی درخواست کی اور سجدہ ریز ہوکر اس کے حضور رجوع کیا۔
عام طور پر سارے مفسرین اور قارئین اس قصے کے حوالے سے جس چیز میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں وہ یہ کہ حضرت داؤد کا وہ کیا معاملہ تھا جس کی طرف ان کی توجہ اس طرح مبذول کرائی گئی ہے۔ حالانکہ اس واقعے کو بیان کرنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ حضرت داؤد کے کسی کمزور معاملے کو لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ سیاق کلام تو یہ بتا رہا ہے کہ یہ واقعہ حضرت داؤد کی عظمت کا غیرمعمولی بیان ہے جسے کفار مکہ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس واقعے میں اللہ تعالیٰ کے التفات کا یہ عالم ہے کہ آیت 17 جہاں سے حضرت داؤد کا تذکرہ شروع ہوا ہے یہ کہہ کر ان کا ذکر کیا گیا ہے کہ اے نبی جو کچھ یہ (کفار) کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔
قرآن مجید کے ادا شناس جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنا بندہ کہہ کراس کا ذکر کرتے ہیں تو یہ قرب کا سب سے اعلیٰ مقام ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد ان کی اس تسبیح کا ذکر ہے جس کا ساتھ دینے کے لیے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا گیا تھا۔ پھر ان کی عظیم سلطنت، اس کو چلانے کے لیے دی گئی حکمت اور معاملات کا فیصلہ کرنے کی۔ صلاحیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ گویا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کیا عظیم روحانی اور مادی سلطنت تھی جس کے وہ بادشاہ تھے۔
اس کے بعد اس واقعے کا ذکر ہے جو شروع میں بیان ہوا۔ اور اس سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک طرف یہ عظیم بادشاہ ہے جس نے دوسروں کی غلطی میں اپنی کمزوری کو ڈھونڈ لیا۔ جس نے براہ راست توجہ دلانے سے قبل ہی خدا کی عظمت کے آگے خود کو ڈھیر کر دیا۔ جس نے رعایا کے دو عام افراد کے جھگڑے میں خدا کا پیغام ڈھونڈ لیا۔ دوسری طرف مکہ کے یہ سرکش سردار ہیں جن کا ذکر اس واقعے سے پہلے ہوا ہے۔ ان کے پاس خدا کا رسول آگیا ہے۔ خدا کا پیغام آگیا ہے۔ ان کو براہ راست نصیحت کی جا رہی ہے۔ ان کے بدترین جرائم پر خوفناک عذاب کی تنبیہ کی جا رہی ہے۔ مگر حال یہ ہے کہ یہ لوگ ہٹ دھرمی اور تکبر کا شکار ہیں۔ ماننے کے بجائے شک میں پڑے ہیں۔ رسول کے سامنے سر جھکانے کے بجائے اسے جادوگر اور جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔
چنانچہ ایک رویہ ان کفار کا ہے اور دوسرا رویہ حضرت داؤد کا ہے۔ پہلے رویے پر عذاب کی وعید ہے۔ بدر کے روز حسب وعدہ یہ عذاب آیا اور ان کو ہلاک کر دیا گیا۔ جبکہ حضرت داؤد پر جو انعامات کیے گئے، اس کا ذکر گزر چکا ہے کہ وہ کیسی عظیم روحانی اور مادی سلطنت کے حکمران تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں دو کرداروں کا بیان ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ رہے ہیں۔ ایک کردار وہ ہے جن کو براہ راست نصیحت کر دی جائے، ان کے جرائم پر کھل کر تنقید کر دی جائے، اللہ کی سخت پکڑ سے ڈرایا جائے، تب بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسری طرف وہ کردار ہوتا ہے جو تنبیہ سے پہلے اپنی اصلاح کر لیتا ہے۔ جو دوسرے کے معاملات میں اپنے لیے نصیحت کا پہلو ڈھونڈ لیتا ہے۔ جو غلطی کا خیال بھی دل میں آنے پر نادم ہو جاتا ہے۔ سورہ ص کی یہ آیات بتاتی ہیں کہ پہلی قسم کے کرداروں کا انجام بدترین عذاب ہے۔ اور دوسری قسم کے کرداروں کو دنیا میں بھی بھلائی ملتی ہے اور آخرت میں بھی بہترین بدلہ ان کا منتظر ہے۔