منکر جب معروف بن جائے ۔ ابویحییٰ
ایک فیملی میں کسی بچی کا رشتہ آیا۔ لڑکا سرکاری ملازم تھا۔ تیس چالیس ہزار ماہانہ تنخواہ تھی، مگر خرچے لاکھوں کے تھے۔ اس کا سبب رشوت کی کمائی تھی۔ رشتہ کی ابتدائی بات چیت میں بھی وہ نوجوان اور اس کے گھر والے رشوت اور کرپشن کی آمدنی کا اس طرح ذکر کرتے رہے جیسے کہ یہ کسی جائز کاروبار سے آمدنی کا ذکر کر رہے ہوں۔
لڑکی والے بہت دیانتدار اور خدا کا خوف رکھنے والے تھے۔ دو تین ابتدائی ملاقاتوں میں جب یہ ذکر بار بار ہوا تو انھوں نے رشتہ ختم کرنے سے پہلے ایک دفعہ براہ راست لڑکے سے اس حوالے سے بات کرلی۔ اس پر لڑکے اور اس کی فیملی کی طرف سے سخت رد عمل آیا کہ یہ کون سا قابل اعتراض معاملہ ہے جس پر سوالات کیے جائیں۔ چنانچہ یہ رشتہ ختم ہوگیا۔
جو لوگ قرآن وحدیث سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ دین اس صورتحال کو ایک بہت بڑے عذاب سے پہلے کا پیش خیمہ سمجھتا ہے کہ کسی معاشرے میں لوگ منکر پر اتنے دلیر ہوجائیں کہ اس منکر کو معروف اور معروف کو منکر سمجھنے لگیں۔ رشوت اور کرپشن معمول کی چیز بن جائے اور اس پر سوال کرنے والے مجرم قرار پائیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اسی دور میں داخل ہوچکا ہے۔ تاہم ایک اچھی بات یہ ہے کہ اسی معاشرے میں کچھ لوگ پوری قوت سے اس بات پر قائم ہیں کہ وہ اس برائی کو برائی سمجھیں گے، چاہے ان کی شادی کے قابل بیٹی کا رشتہ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے۔
پاکستانی قوم کے مستقبل کا فیصلہ اگلے دو عشروں میں ہونے والا ہے۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ اس بنیاد پر کریں گے کہ معاشرہ مجموعی طور پر کس طرح کے لوگوں کی بات کو سنتا ہے۔ ہماری بچت کا ایک ہی راستہ ہے کہ معاشرہ اہل خیر کی بات سنے۔ ورنہ ایک کرپشن زدہ معاشرے کا انجام یہی ہوگا کہ وہ اپنی عیاشیوں سمیت زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔