تاکہ آنکھوں والے دیکھ سکیں ۔ ابویحییٰ
جماعت ختم ہوئی۔ میں نوافل ادا کرنے کے لیے پچھلی صف میں آگیا۔ نماز میں میں نے سورہ نبا کی تلاوت شروع کر دی۔ اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان گنت احسانوں میں سے کچھ کا ذکر کر کے یہ فرمایا ہے کہ اگر ہم تمہیں اس طرح نعمتیں دے رہے ہیں تو جان لو کہ ایک دن ہم ان نعمتوں کا حساب بھی کریں گے اور یہ فیصلے کا دن آکر رہے گا۔
میں نے یہیں تک تلاوت کی اور پھر رکوع میں چلا گیا۔ مگر خدا کے سامنے اس رکوع سے سر اٹھانا میرے لیے بہت مشکل ہوگیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ رکوع میں میری نگاہ اس لڑکے کے پیروں پر پڑی جو میرے برابر کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔ اس کے دونوں پیر ٹیڑھے ہوکر پیچھے کی سمت مڑے ہوئے تھے۔ وہ بمشکل اپنا توازن برقرار رکھ کر قیام میں کھڑا تھا۔ قرآن میں آنے والے خدا کے الفاظ نے مجھ پر وہ اثر نہیں کیا تھا جو اس منظر نے کر دیا تھا۔ وہاں بھی خدا کی نعمتوں کا ذکر تھا مگر یہاں میرے سامنے یہ زندہ سوال آگیا تھا کہ اگر میرے پیر بھی ایسے ہوتے تو زندگی کتنی مشکل ہوجاتی۔
انسان ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں گزارتا ہے، مگر کبھی اسے یہ یاد نہیں آتا کہ ایک روز پروردگار ان نعمتوں کا حساب کرے گا۔ انسانوں کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ معذوروں کی شکل میں ایک زندہ نصیحت ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑنے اس حقیقت کو اپنے لافانی انداز میں اس طرح بیان کیا ہے کہ خدا نے اندھے اس لیے پیدا کیے ہیں تاکہ آنکھوں والے دیکھ سکیں۔ مگر انسان ان معذوروں سے صحیح سبق حاصل کرنے کے بجائے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں یا بہت ہوا تو ان پر ترس کھاتے ہیں۔ حالانکہ انسانوں کو ترس اپنے اوپر کھانا چاہیے۔ کیونکہ ان معذوروں کو خدا کے احتساب سے نہیں گزرنا ہوگا۔ احتساب ہمارے جیسے لوگوں کا ہوگا۔
بدنصیب یہ معذور اور محروم لوگ نہیں۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام میں استعمال ہو رہے ہیں اور اگر یہ صبر کریں گے تو یہ اپنا اجر بلاحساب کتاب پالیں گے۔ بدنصیب وہ ہیں جو انہیں دیکھ کر بھی نہ سنبھلیں، کیونکہ قیامت کے بعد شروع ہونے والی زندگی میں انہیں ہمیشہ کے لیے معذور کر دیا جائے گا۔