نوجوانوں کے لیے پانچ مشورے ۔ یاسر پیرزادہ
ڈاکٹر عادل نجم بھلے آدمی ہیں، ہمارے لڑکپن میں پی ٹی وی پر میزبانی کیا کرتے تھے، پھر ایک طویل عرصے کے لیے نہ جانے کہاں غائب ہوگئے، کئی برس بعد ایک دن اچانک پتہ چلا کہ لمز کے وی سی چُن لیے گئے ہیں۔ وہاں سے فراغت کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ آج کل بوسٹن میں رہتے ہیں، تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں، ماحولیاتی آلودگی سے بھی خاص دلچسپی ہے۔ آئے روز اس سے متعلق بین الاقوامی کانفرنسیں بھگتاتے رہتے ہیں اور ٹویٹر پر اپنی تصویریں اپ لوڈ کرکے ہم ایسوں کا دل جلاتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پاکستانی نوجوانوں کے بارے میں بیک وقت پُرامید اور فکرمند رہتے ہیں، حال ہی میں انہوں نے یو این ڈی پی کے تعاون سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو خاصے کی چیز ہے، رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت %64 آبادی 30 سال سے کم عمر ہے جن میں سے %29 ایسے ہیں جن کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے، ان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے چشم کشا اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں جنہیں بیان کرنا یہاں ممکن نہیں، اس کے لیے آپ کو ویب سائٹ پر رپورٹ کا حقائق نامہ (Fact Sheet) پڑھنا پڑے گا، مختصر بات یہ ہے کہ اگلی تین دہائیوں تک یہ نوجوان پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ عادل نجم کی رپورٹ پڑھ کر رجائیت کا احساس ہوتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے ڈاکٹر صاحب نے اِن نوجوانوں سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب پُرامید ضرور ہیں مگر خوش فہم نہیں۔ اِس رپورٹ کو مرتب کرنے کے دوران ڈاکٹر صاحب ملک کے طول و عرض میں گھومے اور ہر خطے اور ہر طبقے کے نوجوان سے باتیں کیں، ایک دلچسپ بات انہوں نے بتائی کہ نوجوانوں کے جس گروپ میں بھی انہوں نے سوال پوچھا کہ آپ کی زندہ آئیڈیل شخصیت کون ہے تو نوجوانوں کے پاس اپنے باپ کے علاوہ بتانے کے لیے کوئی نام ہی نہیں تھا۔ گویا ہم نے اپنے معاشرے میں جو کالک ملی ہے اُس کے نتیجے میں ہر نیک نام شخص کو قابل نفرت بنا دیا ہے، اب ہمارے نوجوانوں کے پاس کوئی رول ماڈل ہی نہیں جس کی وہ تقلید کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ڈاکٹر صاحب جتنا پُرامید بھی نہیں رہا۔ ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں 15 سال کی عمر تک جب بچہ میٹرک کرتا ہے تو معاشرتی علوم کی کتابوں کو رٹہ لگا کر دنیا کے بارے میں اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر اپنا چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ذہن سازی یوں ہوتی ہے کہ۔۔۔ ہم ایک عظیم قوم ہیں۔۔۔ عالمی طاقتوں کو ہمارا وجود کھٹکتا ہے۔۔۔ کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف دیکھا تو ہم سر کاٹ دیں گے (حقیقت میں ساتویں آٹھویں کے بچے سر کاٹنے والی اصطلاحات بے دریغ استعمال کرتے ہیں) گویا جو نسل ہم تیار کرچکے ہیں وہ نفرت کے بیانیے کے زیر اثر پروان چڑھی ہے، ان بچوں کا تنقیدی شعور نہ ہونے کے برابر ہے اور اِن کے ذہنوں میں ایک ایسی دنیا کا تصور ہے جو اُن کے عظیم الشان ماضی سے حسد کرتے ہوئے اُن کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس کے ہاتھ میں پاکستان کے اگلے تیس برس ہوں گے۔ اِس نسل کے نوجوانوں کے لیے آج پانچ مفت مشورے پیش خدمت ہیں:
پہلا مشورہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو اسکول میں پڑھایا گیا ہے اسے فراموش کر دیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمع تفریق کرنا بھول جائیں یا انگریزی گرامر یا صرف و نحو بھلا دیں (ایسا میٹرک پاس نوجوان جو صرف و نحو کا مطلب جانتا ہو مجھ سے ہزار روپے انعام لے سکتا ہے)، مراد یہ ہے کہ اسکول میں تاریخ اور معاشرتی علوم کے نام پر آپ کو جو رٹایا گیا ہے اسے بھول کر کسی غیر ملکی طالب علم کی طرح اپنی تاریخ کو بغیر کوئی رعایت دئیے ذہن میں وہ تمام سوالات جمع کریں جن کا جواب نصابی کتابوں میں نہیں اور پھر ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہوگا مگر اِس کا آسان حل یہ ہے کہ ہر قسم کی کتابیں پڑھیں، ہر قسم کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کریں۔
سوچیں کہ دنیا ہماری طرح کیوں نہیں سوچتی، ہر وہ سوال اٹھائیں جو اسکول میں ذہن میں آتا تھا مگر شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ پائے، اگر کتابیں پڑھنا مشکل لگے تو اخبارات پڑھیں، ادارئیے پڑھیں، ایک آدھ انگریزی جریدے پر نظر دوڑا لیں، کچھ نہ کچھ ایسا ضرور پڑھیں جو اسکول میں نہیں پڑھایا گیا۔ جب آپ پڑھنے کی عادت اپنالیں گے تو پھر سوال اٹھے گا کہ کون سی کتاب حقائق پر مبنی ہے، کس کا نقطہ نظر صحیح ہے اور کس تاریخ دان کی بات حقیقت کے قریب ہے، یہ مرحلہ تنقیدی فکر اپنانے کا ہوگا اور یہی دوسرا مشورہ ہے۔ تنقیدی فکر کی کوئی تربیت ہمیں نہیں دی جاتی، ہمیں علم ہی نہیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے، اسکولوں کی بات چھوڑیں یہاں تو بڑے بڑے پی ایچ ڈی صاحبان اِس سے محروم ہیں۔ تنقیدی فکر دراصل سوچ کے اس طریقہ کار کو کہتے ہیں جس کے تحت آپ اپنے تعصبات کو پرے پھینک کر فقط حقائق کی چھانٹی کرکے سچ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں، یعنی اگر آپ پنجابی ہیں تو سندھی بن کر سوچیں، اگر سندھی ہیں تو پنجابی بن کر سوچیں، اگر مرد ہیں تو عورت بن کر سوچیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ تمام بُت توڑ کر سوچیں، یعنی ذہن میں پہلے سے بٹھائی گئی باتوں کی پروا کئے بغیر سوچیں اور بے رحم ہو کر صرف حقائق تلاش کریں چاہے اُس کی زد میں آپ کے اپنائے ہوئے رومانوی نظریات ہی کیوں نہ آجائیں۔ جس دن آپ یہ کام سیکھ لیں گے، آپ پر حیرت انگیز انکشافات ہوں گے، آزمائش شرط ہے۔
تیسرا مشورہ یہ ہے کہ اپنا world view درست کریں۔ ساری دنیا ہماری دشمن نہیں اور ہم کوئی ایسے اہم بھی نہیں کہ دنیا کی طاقتیں ہمارے خلاف متحد ہوجائیں، اِس زمین پر صرف ہمارا ہی ماضی شاندار نہیں رہا بلکہ یورپ اور ایشیا کے دیگر ممالک کے پاس بھی عالیشان تاریخ ہے۔ لہٰذا اِس فریب سے نکلیں کہ امریکہ اور یورپ کی ترقی ہماری مرہون منت ہے، اور اگر ایسا ہے بھی تو آج اپنی ذلت و ناکامی کے ذمہ دار ہم خود ہیں نہ کہ کوئی صیہونی سازش! کیا یہ امریکہ اور یورپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ابن سینا، فارابی اور جابر بن حیان کے علم سے استفادہ کرنے کی رائلٹی ہمیں ادا کرے؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں دنیا سے متعلق اپنے نفرت بھرے بیانیے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
چوتھا مشورہ اِس ساری بحث سے ہٹ کر ہے کہ نوجوان اپنے اندر کوئی ایسا ہنر پیدا کریں جس کی معاشرے میں مانگ ہو مگر ہنرمند افراد کم ہوں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں پیرامیڈک سٹاف کم ہے اِس کے باوجود کتنے لڑکے ایسے ہیں جن کی زبانی آپ نے یہ سنا ہو کہ وہ میل نرس بننا چاہتے ہیں جبکہ اِس کی نوکری بھی آسانی سے مل جاتی ہے؟ اسی طرح آج کل ہر کم تعلیم یافتہ شخص ڈرائیور بن جاتا ہے کیونکہ یہ کام آسان ہے یہی وجہ ہے کہ ڈرائیور کو نوکری ملنا اب مشکل ہوگئی ہے، اس کے برعکس لوگ باورچی کا کام نہیں سیکھتے جبکہ مارکیٹ میں اِس کی مانگ زیادہ ہے۔ سو، اپنی تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے نوجوان اُس ہنر کا تعین کرسکتے ہیں جس کی معاشرے میں مانگ ہو اور پھر وہ اُس میں کمال حاصل کر کے اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔
نوجوانوں کے لیے آخری مشورہ۔۔۔ محبت کریں۔ انسانوں میں خامیاں ہوتی ہیں، انسانوں کو اُن کی خامیوں سمیت قبول کریں اور اُن سے محبت کریں، اگر آپ کو کسی شخص میں کوئی برائی نظر آتی ہے تو آپ اُس برائی کو اپنائے بغیر بھی اُس شخص سے محبت کرسکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے آپ کی اپنی ذات میں خرابیاں ہوں گی مگر اس کے باوجود آپ خود سے محبت کرتے ہیں، یہی اصول دوسرے انسانوں کے لیے بھی اپنائیں۔ ہمارے معاشرے کو اِس محبت کی اشد ضرورت ہے۔