مضامین قرآن (63) حقوق العباد : رشتہ داروں سے حسن سلوک ۔ ابویحییٰ
ماں باپ کے بعد انسان کا سب سے مضبوط تعلق قرابت داروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں جب لوگ قبیلوں اور برادریوں کی شکل میں رہتے تھے تو پورا قبیلہ اور برادری ہی دور اور قریب کے رشتہ داروں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ تاہم قرابت کا اصل اطلاق ماں باپ کے تعلق سے وجود میں آنے والے رشتوں پر ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے یہ رحمی رشتے کہلاتے ہیں۔ ان کا قریبی دائرہ بھائی بہن، ان کی اولادوں، والدین کے بھائی بہن، پھر ان کی اولادوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال کا تعلق بھی اسی دائرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ دائرہ ہے جس میں ہمارے اصل رشتے پائے جاتے ہیں۔ یہی وہ دائرہ ہے جہاں ہماری زندگی، تعلقات اور محبتوں کا اہم ترین حصہ موجود ہوتا ہے۔ اس دائرے میں محبت اور لحاظ کو باقی رکھنے کے لیے قرآن مجید نے بہت تاکید کی ہے اور کئی پہلوؤں سے وہ ہدایات دی ہیں جن کی پیروی اس دائرے میں محبت کی فضا قائم رکھتی ہے۔
ان ہدایات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ انسان جیتا بستا ہے ان میں سب سے اہم رشتہ دار ہیں۔ یہ خدا کی طرف سے طے کردہ وہ تعلق ہے جو انسان اپنی مرضی سے نہیں بدل سکتا۔ بھائی، بہن، چچا، تایا، پھوپھی، ماموں اور خالہ وغیرہ جیسے رشتے ہمارا نہیں خدا کا انتخاب ہوتے ہیں۔ ان سے تعلق دوست احباب سے تعلق کی طرح نہیں ہوتا جو ذوق، ضرورت، مفاد اور حالات بدلنے پرٹوٹ جایا کرتا ہے۔ یہ رشتے زندگی سے موت تک اور گود سے گور تک ہمارے ساتھ چلتے ہیں۔ زندگی کے ہر دور میں یہ لوگ ہماری ہر خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ہر دکھ درد میں ساتھ ہوتے ہیں۔
لیکن انسان مختلف مزاجوں کے ہوتے ہیں۔ ان کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ پھر ان سے ہر وقت کا ملنا جُلنا بھی ہوتا ہے۔ اس سے بھی اختلافات جنم لیتے ہیں۔ بعض اوقات مفادات کا ٹکراؤ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان اگر صحیح جگہ پر نہ کھڑا ہو تو گلے شکوے سے بات شروع ہوتی ہے، دل شکنی تک پہنچتی ہے اور پھر تعلقات کی باریک ڈور کسی روز اس طرح ٹوٹ جاتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید نے اپنی رہنمائی سے رشتوں کی اس باریک ڈور کو مضبوط کیا ہے۔
رشتہ داروں کے حوالے سے قرآن مجید کی رہنمائی
قرآن مجید نے قرابت داری کے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے چار پہلوؤں سے ہدایات دی ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے اور ایک حق سمجھ کر اپنا مال انھیں دے۔ انسانی نفسیات ہے کہ انسان اپنے مال پر صرف اپنا یا اپنے بیوی بچوں کا حق سمجھتا ہے۔ مگر کوئی انسان اگر اس سطح سے اوپر اٹھ کر اس مال پر رشتہ داروں کا حق بھی اسی طرح سمجھے جس طرح وہ اپنے بیوی بچوں کا سمجھتا ہے تو یہ ایک بہت اعلیٰ اخلاقی وصف ہے جو دلوں کو جوڑنے اور باہمی محبت بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جب کسی پر مال خرچ کیا جاتا ہے تو اس کے دل میں ہمارے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ انفاق ایک علامتی اظہار بن جاتا ہے کہ ہم کسی شخص کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارا انفاق یوں تو ہر شخص کو ہمارا گرویدہ بناتا ہے، مگر جب یہ قرابت داروں پر کیا جاتا ہے تو یہ پہلے سے موجود رشتے میں مزید گرمجوشی پیدا کر دیتا ہے۔ جب کسی مشکل میں اپنے کسی عزیز کی مدد کی جاتی ہے، اسے تحفہ دیا جاتا ہے، اسے مالی سہارا دیا جاتا ہے تو یہ چیز انسان کو اس کی نگاہ میں بہت محبوب بنا دیتی ہے۔ یہ انفاق زبان و رویے کی دس کمزوریوں کی تلافی کر دیتا ہے۔ یہ حسن ظن پیدا کرتا ہے۔ یہ شکر گزاری اور احسان مندی پیدا کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں تعلقات کی ڈور کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی ہیں اور زندگی ان رشتوں کی محبت سے اپنا حسن و کمال پالیتی ہے۔
قرآنی ہدایات کا دوسرا پہلو قرابت داروں سے حسن سلوک کی تلقین ہے۔ یہ اپنے رویے، طرز عمل اور گفتگو میں خوبی، نرمی، محبت اور ہمدردی کا نام ہے۔ انسان مال خرچ نہ کرسکے لیکن اپنی زبان کو میٹھا رکھے، اپنے رویے کو شائستہ رکھے، دوسروں کو عزت و وقار دے، ان سے احترام سے پیش آئے؛ یہ سب چیزیں انسان کے دل میں بڑی جگہ پیدا کرتی ہیں۔ خاص کر رشتہ دار جو بغیر کسی مفاد کے صرف قرابت کی بنیاد پر جڑے ہوں، ان کے ساتھ حسن سلوک ان کے دل کو ہمیشہ نرم رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے میں انسان کا کچھ نہیں جاتا، صرف احساس زندہ ہونا چاہیے مگر اس کے نتائج بہت اچھے نکلتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے حسن سلوک پر بہت زور دیا ہے۔
رشتہ داروں کے حوالے سے قرآنی ہدایات کا تیسرا پہلو صلہ رحمی کے حکم پر مبنی ہے۔ بعض اوقات ذوق اور مزاج کے اختلاف اور حالات اور مصروفیات کی بنا پر طبیعت رشتہ داروں سے ملنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ تب بھی صرف رشتہ داری کی بنیاد پر ان کا حق ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ملا جائے۔ ان کی خوشی غمی میں شریک ہوا جائے۔ ان کے ساتھ تعلق کی ڈور کو اجنبیت کی قینچی سے کاٹنے اور وقت کی گرد میں بوسیدہ کرنے کے بجائے اسے برقرار رکھا جائے۔ یہ صلہ رحمی ہے۔
چوتھی اور آخری ہدایت یہ ہے کہ قطع رحمی سے بچا جائے۔ یہ صلہ رحمی کا متضاد ہے۔ عام طور پر رشتہ دار ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔ مگر انسانوں کا مزاج برتنوں کی طرح ہوتا ہے۔ ساتھ رہتے ہیں تو باہمی ٹکراؤ ہو ہی جاتا ہے اور آوازیں آنے لگتی ہیں۔ اختلاف ہو جاتے ہیں۔ شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ بات لڑائی جھگڑے تک جاپہنچتی ہے اور آخرکار نوبت دشمنی کی آجاتی ہے۔ دشمنوں سے کون ملتا ہے؟ اس لیے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر دین کا حکم ہے کہ یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے۔ ایسے میں اس تعلق کو باقی رکھنا محسنین کا کام ہوتا ہے۔ احسان کا یہ رنگ جب انبیا کی زندگیوں میں ظاہر ہوتا ہے تو یوسف کریم ابن کریم ابن کریم کنویں میں پھینکنے والے بھائیوں کومعاف کرکے انھیں عزت و مقام دیتے ہیں۔ رحمت للعالمین کی ہستی قریش کے ہر ظلم و ستم کو معاف کرکے انھیں عزت و وقار عطا کر دیتی ہے۔ احسان کا یہ رنگ جب صدیقین کی زندگیوں میں ظاہر ہوتا ہے تو صدیق اکبر اپنی عزیز بیٹی پر بہتان لگانے جیسے سنگین عمل میں شریک صاحب کو معاف کرکے ان کی مدد اور احسان کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں کہ یہی فرمان رب ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ایک بندہ مومن کو قطع تعلق سے روکتی ہے اور بدترین حالات میں بھی رشتہ داروں سے تعلق قائم رکھنے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان پر خرچ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یوں یک طرفہ صبر، احسان اور درگزر نفرت کے اس زہر کا اثر زائل کر دیتا ہے جو شیطان نے اس تعلق میں گھول کر قطع رحمی کی راہ ہموار کرنی چاہی تھی۔
قرآنی بیانات
”اور یاد کرو، جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں خون نہ بہاؤ گے اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔ پھر تم نے اقرار کیا اور تم اُس کے گواہ ہو۔“،(البقرہ84:2)
”اور مال کی محبت کے باوجود اُسے قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں“،(البقرہ177:2)
”اور اللہ نے جس چیز(یعنی رشتہئ قرابت) کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُسے کاٹتے ہیں“، (البقرہ27:2)
”لیکن تقسیم کے موقع پر جب قریبی اعزہ اور یتیم اور مسکین وہاں آجائیں تو اُس میں سے اُن کو بھی کچھ دے دو اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔“، (النساء8:4)
”والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور رشتہ دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور ہم نشینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔“، (النساء36:4)
”بے شک، اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے“، (النحل 90:16)
”تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔“، (الاسراء26:17)
تم میں سے جو لوگ صاحب فضل ہیں اور جن کو وسعت عطا ہوئی ہے، وہ (اِس معاملے میں کسی کو ملوث دیکھ کر) اِس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اب وہ قرابت مندوں اور مسکینوں اور خدا کی راہ میں ہجرت کرنے والوں پر خرچ نہ کریں گے۔ (نہیں، بلکہ) اُن کو چاہیے کہ بخش دیں اور درگذر سے کام لیں۔“، (النور22:24)
”اور جو اُس چیز(یعنی رشتہئ قرابت) کو جوڑتے ہیں جسے اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے“، (الرعد21:13)