بس یہی دل ۔ ابویحیٰی
پچھلے دنوں مجھے ایک تقریب میں شرکت کا اتفاق ہوا جس کا انعقاد ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ یہ تقریب جس ہال میں منعقد کی گئی تھی اس کا ماحول بہت مسحور کن تھا۔ وسیع ہال، بڑے بڑے خوبصورت فانوس، دبیز قالین، ٹھنڈی فضا، خوش رنگ پردے اور دیواریں اور ان سب کے ساتھ ایک پرتکلف عشائیہ۔
میں اس محفل میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اس طرح کے ماحول میں ایسی محافل دنیا بھر میں عام ہوتی ہیں۔ مگر ان میں ہر کس و ناکس کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسی جگہوں پر داخلے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو صرف نامور، باصلاحیت، صاحب حیثیت اور بااثرلوگ ہی دے سکتے ہیں۔ معاشرے کے عام افراد کی پہنچ سے یہ سب کچھ ساری زندگی باہر ہی رہتا ہے۔
ایسے میں مجھے خیال آیا کہ مالک کائنات جب اپنی جنت بنائے گا تو یقیناً وہ دنیا کی ان تمام نعمتوں سے زیادہ حسین ہوگی۔ مگر اس جنت کی خوبیوں میں سے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے کوئی مال، کوئی نام، کوئی صلاحیت اور کوئی اثر و رسوخ نہیں چاہیے۔ جنت کی حسین وادی، اس کی پرلطف محفلوں، اس کی ابدی بادشاہی اور اس کی غیر فانی نعمتوں کے حصول کی قیمت کچھ نہیں۔ بس اک ٹوٹا ہوا دل۔ ۔ ۔ رب کی عظمت کے احساس سے پاش پاش دل۔ یہی جنت کی قیمت ہے۔
وہ دل جس میں اخلاص ہو۔ رب کی سچی چاہت ہو۔ اس کی اطاعت کا جذبہ ہو۔ اس کے نام پر مرمٹنے کی خواہش ہو۔ اس کے عہد کی پاسداری ہو۔ اس سے وفا کا عزم ہو۔ اس کی رحمت کی امید ہو۔ اس کی پکڑ کا خوف ہو۔ اس سے ملاقات کا شوق ہو۔ اس کے رسول کی محبت ہو۔ اس کے دین کی حمیت ہو۔ اس کی فردوس کی رغبت ہو۔ بس یہی ۔ ۔ ۔ بس یہی دل چاہیے۔
لوگ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھینک دیتے ہیں۔ مگر خدا ٹوٹے ہوئے دل کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔ اتنا زیادہ کہ اس کے بدلے میں اپنی سب سے بڑ ی نعمت ۔ فردوس کی ابدی بادشاہی۔ دینے کے لیے تیار ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ آج لوگوں کے پاس ساری دینداری ہے۔ ۔ ۔ یہی ٹوٹا ہوا دل نہیں۔