حقوق باری تعالیٰ:نماز
اللہ تعالیٰ کی عبادت یا بندگی دین کا مرکزی مطالبہ ہے ۔ یہ مطالبہ عملی شکل میں تین سطحوں پر اپنا ظہور چاہتا ہے ۔ایک احساس و جذبات کی سطح پر۔ دوسرے عبادات کے اس نظام کے تحت جس میں انسان اپنی بندگی کے جذبات کا عملی اظہار کرتا ہے ۔ اور تیسرے انسانوں کی عملی زندگی میں خداکی حدود اور قوانین کی اطاعت کر کے ۔ان تینوں سطحوں میں عبادات کا نظام وہ بنیاد ہے جو سب سے زیادہ جامع اور موثر انداز میں انسانوں کو خدا سے جوڑ تا اور بندے اور رب کا زندہ تعلق قائم کرتا ہے ۔عبادات کے اس نظام میں نماز کی حیثیت بنیاد کی ہے ۔ قرآن مجیدنماز کے اس ۔حکم کا اصل ماخذنہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ نماز کی شریعت اور قانون وہیں سے اخذ کیے جاتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر اہمیت اور تاکید کے پہلو سے آیا ہے ۔ہم مضامین قرآن کے اس سلسلے میں نماز کے انھی پہلوؤں کی تفصیل کریں گے ۔
قرآن مجید اور نماز
قرآن مجید گوناگوں پہلوؤں سے نماز کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ۔ان مقامات کا احاطہ کیا جائے تو مجموعی طور پر یہ تین پہلو ہیں ۔ ایک نماز کی شریعت کے بعض مسائل جنھیں نزول قرآن کے وقت شرح و وضاحت کے پہلو سے بیا ن کر دیا گیا یا یاددہانی کے لیے انھیں دہرادیا گیا۔ دوسرے نماز کی حکمت اورحقیقت اور تیسرے نماز کی اہمیت اور اہتمام۔ ان میں سے شریعت کا پہلو تو دین کے قانونی اور شرعی مطالبات کے ضمن میں بیان کیا جائے گا۔ باقی دو پہلوؤں کو اخلاقی مطالبات کے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
نماز کی اہمیت اور اہتمام
قرآن مجید میں نماز کو قائم کرنے کا حکم کسی بھی دوسرے دینی حکم کے مقابلے میں سب سے زیادہ دفعہ دہرایا گیا ہے ۔قرآن میں صرف نماز کا نام لے کر ہی نہیں بلکہ اس کے بعض ارکان اور اذکار جیسے قیام، رکوع ، سجود اور تسبیح سے کنایہ کر کے بھی نماز کی اہمیت اور اہتمام کی تاکید کی گئی ہے ۔ خودنماز قائم کرنے کے اسلوب میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ نماز کسی خاص وقت یا موقع پریا کبھی کبھار ادا کی جانے والی عبادت نہیں بلکہ زندگی کے ایک لازمی رکن کی حیثیت سے اختیار کی جانے والی چیز ہے ۔ نماز نہ صرف اہل ایمان کی صفات میں ایک مستقل صفت کے طور پر قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے بلکہ اس سے آگے بڑ ھ کر مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ اس کے حکمران نمازوں کا خود بھی اہتمام کریں اور دوسروں کے لیے بھی اس فریضے کی ادائیگی میں تمام آسانیاں اور سہولتیں فراہم کریں ۔ خاص کر نماز جمعہ کے حوالے سے تو یہ تاکید ہے کہ اس میں مسجد اور جماعت کی حاضری کو لازمی بنایا جائے جہاں حکمران یا ان کا نمائندہ خطبہ جمعہ دینے کے لیے موجود ہو۔ سیاسی طور پر یہ طے کر دیا گیا ہے کہ نظم اجتماعی میں مسلمانوں کے حقوق اوران کی شہریت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ فرد نمازادا کرنے پر تیار ہے یا نہیں ۔ قرآن مجید کو نماز پر اتنا اصرار ہے کہ سفر وحضر سے آگے بڑ ھ کر وہ جنگ کے موقع پر بھی نماز کے اہتمام کا حکم دیتا ہے ۔ گرچہ حالات کے لحاظ سے اس میں کچھ رعایتیں دی گئی ہیں ، مگر زندگی اور موت کی کشمکش میں نماز اور جماعت کا یہ اہتمام اس فریضے کی اہمیت اور تاکید کا واضح بیان ہے ۔
قرآن مجید صرف نماز کے قیام ہی کی بات نہیں کرتا بلکہ اہل نجات کا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور مستقل مزاجی سے دائمی طور پرنماز باقاعدہ ادا کرتے ہیں ۔اسی طرح اہل جہنم کے جرائم میں سے اس بات کو ایک بہت بڑ ے جرم کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وہ نماز نہیں پڑ ھا کرتے تھے ۔ گویا نجات موقوف ہی نماز کی ادائیگی پر ہے ۔ قرآن مجید اسے اہل ایمان کے ایک لازمی وصف کے طور پر ہی بیان نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ بے دلی سے نماز پڑ ھنا منافقین کا وصف ہے ۔وہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ نماز تمام سابقہ انبیا اور صالحین کی تعلیم کا حصہ رہی ہے ، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ زوال پذیر امتیں نمازوں کو ضائع کر دیتی ہیں ۔
قرآنی بیانات
’’۔۔۔اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔۔۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے راست بازی دکھائی اور یہی لوگ ہیں جو سچے متقی ہیں ۔‘‘، (البقرہ177:2)
’’یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے ، زکوٰۃ ادا کریں گے ۔۔۔۔۔‘‘، (الحج41:22)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف مستعدی سے چل کھڑ ے ہو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔۔‘‘، (الجمعہ9:62)
’’پس اگر وہ توبہ کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں ۔‘‘، (التوبہ11:9)
’’نمازوں کی نگہداشت رکھو، خاص طور پر بیچ کی نماز کی اور نمازوں میں خدا کے حضور فرماں بردارانہ کھڑ ے رہو۔اور اگر خطرے کی حالت میں ہو تو پیدل یا سوارجس صورت میں نماز ادا کرسکو، نمازاد کرو‘‘، (البقرۃ238-239:2)
’’اور جب تم سفر میں نکلو تو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔‘‘، (النسا101:4)
’’اور وہ جو اپنی نما زکی حفاظت کرتے ہیں ‘‘، (المعارج34:70)
’’اور جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں ‘‘، (المعارج23:70)
’’ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ جواب دیں گے ، ہم نماز پڑ ھنے والوں میں سے نہیں تھے ۔‘‘، (المدثر42-43:74)
’’( منافقین) نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو بے دلی سے اٹھتے ہیں ‘‘، (النسائ142:4)
’’اورہم نے ان(نبیوں ) کو پیشوا بنایا جو ہماری ہدایت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے ، اور ہم نے ان کو بھلائی کے کام، نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کی ہدایت کی۔ اور وہ ہماری ہی بندگی کرنے والے تھے ۔‘‘، (الانبیا73:21)
’’ اور اللہ نے ان( بنی اسرائیل ) سے وعدہ کیا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز کا اہتمام رکھو گے ، زکوٰۃ دیتے رہو گے ، ‘‘، (المائدہ12:5)
’’اے میرے بیٹے ! نماز کا اہتمام رکھو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں ۔‘‘، (لقمان17:31)
’’پھر ان کے بعد ان کے ایسے جانشین اٹھے جنھوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے تو یہ لوگ عنقریب اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے ۔‘‘، (مریم59:19)
نماز کی حکمت اورحقیقت
قرآن مجید میں نماز کی یہ اہمیت ، اہتمام اور تاکیدکا ذکر اگر ملتا ہے تو ساتھ میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ نماز کی اتنی اہمیت کیوں ہے ۔قرآن مجید کے مطابق نماز اللہ کی یادکا ایک ذریعہ ہے ، (طہ20:16) ۔خدا کی یاد اپنی ذات میں خود ایک مستقل اخلاقی مطالبہ ہے ۔نماز خدا کی اسی یاد کی ایک رسمی شکل ہے جو شب و روز کے آٹھ پہروں میں سے ان پانچ پہروں میں فرض کی گئی ہے جن میں انسان جاگ رہا ہوتا ہے ۔ یہ نماز اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے جذبہ پرستش کا سب سے بڑ ا اظہار ہے ۔اس عبادت کو ادا کر کے انسان باقی مخلوقات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے جو اپنے اپنے طریقے سے اسی نماز کو ادا کرتی ہیں ۔چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس عبادت کو ایک اجتماعی عبادت قرار دیا گیا اور مساجد میں اس کی ادائیگی اور اس موقع پر زینت اختیار کرنے حکم دیا گیا۔یوں گویا یہ بندگی کے کائناتی حسن میں انسانیت کے دھارے کو شامل کرنے کا عمل ہے ۔
نماز کا اصل حسن یہ ہے کہ مشرکانہ عبادات کے برعکس جہاں معبود سامنے ہوتا ہے ، نمازی غیب میں رہ کر خدا کی بندگی کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر یہ کسی بندہ مومن کے ایمان کا سب سے بڑ ا اظہار ہے ۔ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید نے کئی مقامات پر ایمان لانے کے بعداسے پہلا مطالبہ اور ایمانی زندگی کا عملی ظہور قرار دے کر مطالبات دین میں سب سے مقدم رکھا ہے ۔ساتھ میں قرآن مجید یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ایمان کا یہ اظہار کوئی عادتاً سرانجام دیا جانے والا عمل نہیں ہونا چاہیے بلکہ بندہ مومن کی نماز کو اس کے ایمان کی طرح خشوع اور قنوت یعنی عاجزی اور فرمانبرداری کا اظہار ہونا چاہیے ۔
یہی وہ نماز ہے جو انسان کو خدا کی نافرمانی کے ہر موقع پر متنبہ کرتی ہے کہ وہ بندہ خدا ہے اس لیے خدا کے حرام کردہ ہر فحش ومنکر سے اسے رک جانا چاہیے ۔یہی نماز ہے جو اس کے گنا ہوں کو اس سے دور کرتی ہے ۔ یہی نماز اسے بتاتی ہے کہ بندہ مومن زندگی کے سرد وگرم میں تنہا نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا مالک ہر مشکل میں اس کی مدد کے لیے موجود ہے ۔ اسے چاہیے کہ آئے اور نماز میں کھڑ ے ہوکر اپنے آقا کو یہ بتائے کہ اسے کیا مسائل درپیش ہیں ۔ وہ خدا جس کی حمد کے لیے بندہ حاضر ہوا ہے ، اسے وہ اپنی درخواست کو سننے والا پائے گا۔اور آخری بات یہ ہے کہ نمازوہ ذریعہ ہے جس میں بندہ مالک کے قدموں میں گرکر اسے سجدہ کرتا ہے اور عین اس لمحے وہ اس کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
قرآنی بیانات
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو‘‘، (طہ14:20)
’’دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے بھی پروں کو پھیلائے ہوئے ۔ ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ باخبر ہے اس چیز سے جو وہ کر رہے ہیں ۔‘‘، (النور41:24)
’’اے بنی آدم! ہر مسجد کے وقت اپنے لباس زینت پہنو ۔‘‘، (الاعراف31:7)
’’ان (مساجد )میں ایسے لوگ صبح و شام خدا کی تسبیح کرتے ہیں جن کو کاروبار اور خرید و فروخت اللہ کی یاد، نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے ۔ ‘‘، (النور37:24)
’’(یہ کتاب ہدایت ہے ان کے لیے )جو غیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں اورجو نماز قائم کرتے ہیں ‘‘، (البقرہ3:2)
’’اور اپنے خداوند کا نام یاد کیا اور نماز پڑ ھی‘‘، (الاعلیٰ15: 87)
’’اسی کی طرف متوجہ ہو کر اور اسی سے ڈرو اور نماز کا اہتمام رکھو۔‘‘، (روم31:30)
’’ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ وہ اللہ ہی کی بندگی کریں ، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ، بالکل یکسو ہو کر اور نماز کا اہتمام رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور یہی سیدھی ملت کا دین ہے ۔‘‘، (البینہ5:98)
اور نمازوں میں خدا کے حضور فرماں بردارانہ کھڑ ے رہو۔‘‘، (البقرۃ238:2)
’’جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں ۔‘‘، (المومنون2:23)
’’ اور نماز کا اہتمام کرو۔ بے شک نماز بے حیائی اور منکر سے روکتی ہے ۔‘‘، (العنکبوت45:29)
’’اور نماز کا اہتمام کرو دن کے دونوں حصوں میں اور شب کے کچھ حصہ میں ۔ بے شک نیکیاں دور کرتی ہیں بدیوں کو۔‘‘، (ہود11:114)
’’اور مدد چا ہو صبر اور نماز سے اور بے شک یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں ۔‘‘، (البقرہ45:2)
’’اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور۔۔۔ اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز کا اہتمام رکھو گے ۔‘‘، (المائدہ12:5)
’’ہرگز نہیں ، اس کی بات نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہو جا۔‘‘(العلق19:96)
ابویحییٰ ایک پاکستانی اسکالراور مصنف ہیں ۔ آپ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں اونرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کیں اور سوشل سائنسز میں ایم فل کیا۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی اسلامک اسٹیڈیز میں مکمل کیا۔ آپ کی ڈیڑھ درجن سے زیادہ تصانیف ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ معروف کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ ہے جو اردو زبان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ آپ دعوت و اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ "انذار" کے بانی اور ماہنامہ "انذار" کے مدیر ہیں۔ اس کے علاوہ کئی برس تک درس قرآن مجید دیتے رہے ہیں۔
Prev Post
Next Post