ترکی کاسفرنامہ ۔ مبشر نذیر 54
دور جدید سے متعلق لکھتے ہیں :
ہمیں جلد از جلد (جدیدیت سے متعلق) فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس کے تین راستے ہیں : پہلا تو وہ طریقہ ہے جو کلیسا نے شروع میں اختیار کیا۔ انہوں نے کھڑ کیاں بند کر لیں اور یہ فرض کر لیا کہ جدیدیت نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں ہے ۔وہ یہ سمجھے کہ اگر ہم جدیدیت کا اقرار نہیں کریں گے تویہ ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم وہی کچھ کریں جو مغرب میں آج کلیسا کر رہا ہے اور وہ یہ کہ جدیدیت کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈالتے ہوئے دور جدید کے تمام تقاضے پورے کر دیے جائیں ۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ ایک واضح روڈ میپ تیار کیا جائے جس کے ذریعے ہم جدید دور کے تقاضوں کا مستند مذہبی علم کی روشنی میں اس طریقے سے جائزہ لیں کہ اس کے نتیجے میں ہمارے مذہبی عقائد پر زد نہ پڑ سکے ۔
جدت پسندی (Modernity) اس کا نام نہیں ہے کہ ہم دنیا پرست ہو جائیں ۔ دوسرے الفاظ میں جدیدیت کسی شخص کو مذہبی اقدار سے خالی کر دینے کا نام نہیں ہے ۔۔۔۔
آج مسلمانوں کو دو بہت بھاری کام سر انجام دینا ہیں ۔ ایک تو انہیں اپنے اندر موجود انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنا ہے ۔ دوسرے انہیں (باہر کی دنیا میں ) اسلام کے منفی تاثر کو ختم کرنا ہے جو کہ بعض مخصوص حلقوں نے جان بوجھ کر غلط نیت سے قائم کیا ہے ۔ ۔۔اسلام کے منفی امیج کو قائم کرنے میں ان الفاظ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو کہ لفظ ’’اسلام‘‘ سے پہلے لگا دیے جاتے ہیں ۔ ان میں ماڈریٹ اسلام، ریڈیکل اسلام اور بنیاد پرستانہ اسلام شامل ہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہے ۔ تمام آسمانی مذاہب اعتدال پسندانہ ہیں اور یہ امن اور ہم آہنگی کے قیام کا ذریعہ ہیں ۔۔۔۔
مذہب میں ریفارم کے بارے میں لکھتے ہیں :
(مذہب میں ریفارم کے بارے میں ) لوگوں کی توقعات دو طرح کی ہوتی ہیں : بعض لوگ مذہب کی ایسی توجیہ چاہتے ہیں جو ان کے طرز زندگی سے موافقت رکھتی ہو۔ وہ خود کو مذہب کے مطابق ڈھالنے کے بجائے مذہب میں اپنی خواہشات کے مطابق تراش خراش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان لوگوں کے خیال میں مذہب کی اصلاح ہونی چاہیے اور اس کی ایک نئی تعبیر کی جانی چاہیے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے ۔ مذہب کی فطرت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
دوسری طرز کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے روایتی تصورات اور تشریحات کو اصلی دین سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ ان کے خیال میں ان تصورات میں تبدیلی، دراصل مذہب میں تبدیلی ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہاں اصل دین زیر بحث نہیں ہوتا بلکہ مذہب کا تاریخی تجربہ زیر بحث ہوتا ہے ۔ دین اور مذہبی تجربہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ دین اس پیغام کا نام ہے جو ہمیشہ کے لئے یکساں طور پر قابل عمل ہے جبکہ مذہبی تجربہ اس پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے مختلف طریق ہائے کار کا نام ہے ۔ یہ مختلف معاشروں اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ہو سکتا ہے ۔
اس وجہ سے دین کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا مگر مذہبی تجربہ تبدیل ہو سکتا ہے ۔ بعض اوقات کسی سنجیدہ معاملے میں مختلف آراء پیدا ہو جاتی ہیں ۔ وہ لوگ جو اپنی روایتی سمجھ کو دین قرار دے رہے ہوتے ہیں ، اسے دین میں تحریف اور ماڈرنائزیشن قرار دے دیتے ہیں ۔۔۔۔
(اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ) ہم دوسروں کی جو غلطیاں دیکھیں ، ان کے خلاف مہم چلانے کی بجائے اچھی مثالیں قائم کر کے ان کے سامنے رکھ دیں ۔
میں احمد اور اردال کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہا تھا۔ احمد بنیادی طور پر دیانت کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کا حصہ تھے ۔ان کی ذمہ داری تھی کہ دیگر ممالک کے مذہبی اداروں سے تعلق قائم کیا جائے ۔ اس کے علاوہ وہ ترکی سے باہر کی مساجد کے ذمہ دار تھے ۔ اردال کا تعلق ریسرچ پراجیکٹس کے انتظامی امور سے تھا۔
احمد بتانے لگے کہ ان کے پاس پاکستان کی ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا وفد بھی آیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر خالد مسعود کر رہے تھے ۔ انہوں نے الماری سے کونسل کا بروشر بھی نکال کر دکھایا۔ احمد کہنے لگے : ’’انہوں نے ہم سے بہت سے سوالات پوچھے ۔ پھر ہم نے بھی ان سے کچھ سوالات پوچھے ۔‘‘ میں نے کہا: ’’اسلامی نظریاتی کونسل آپ کی دیانت کی طرز کا ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ پارلیمنٹ کی مشاورتی کونسل ہے ۔‘‘ وہ یہ بات پہلے سے جانتے تھے ۔ خالد مسعود صاحب نے اس ادارے کو بہت فعال بنا دیا ہے اور اس میں بہت سے تحقیقی پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے ۔
دیانت اور اس کے کاموں کا امپریشن بہت ہی شاندار تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری وزارت مذہبی امور بھی اس طرز کا ادارہ بن جائے ۔ سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کی مساجد اور دینی مدارس کو وزارت مذہبی امور سے متعلق کیا جائے تاکہ اللہ کے گھروں کا فرقہ وارانہ اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال بند ہو سکے ۔
احمد اور اردال کی یہ خواہش تھی کہ میں کھانا ان کے ساتھ کھاؤں ۔ وہ بار بار اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ میرا کام نہیں کر سکے ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کر کے اجازت چاہی۔تھوڑ ی دیر میں ہم دوبارہ انقرہ کی سڑ کوں پر اڑ ے جا رہے تھے ۔ انقرہ شہر کا انفرا اسٹرکچر اچھا تھا۔ سگنل کافی کم تھے ۔ اکثر مقامات پر او ور ہیڈ برج بنا کر راستوں کو ہموار کیا گیا تھا۔ اب ہماری منزل ’’الوس‘‘ کا علاقہ تھی جو کہ انقرہ کا قدیم تاریخی علاقہ تھا۔ یہ علاقہ ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ ہر طرف اس کے بورڈ بھی موجود تھے اور ہر شخص اس سے واقف بھی تھا۔
ایتھنو گرافیکل میوزیم
ڈاکٹر شعبان نے مجھے بتایا تھا کہ انقرہ میں دو بڑ ے عجائب گھر ہیں ۔ ایک عجائب گھر آرٹس سے متعلق ہے جس میں قدیم دور سے لے کر جدید دور تک کے مصوری اور مجسمہ سازی کے نمونے موجود ہیں ۔ دوسرے عجائب گھر کا تعلق ایتھنو گرافی سے ہے ۔ میری دلچسپی ایتھنو گرافی سے تھی۔ اس وجہ سے ہم نے ایتھنو گرافیکل میوزیم دیکھنے کا ارادہ کیا۔
ایتھنو گرافی ، علم بشریات (Anthropology) کی ایک شاخ ہے ۔ اس میں کسی معاشرے کے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں ۔قدیم معاشروں سے متعلق آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران وہاں سے جو اشیاء ملتی ہیں ، اس کی روشنی میں اس تہذیب کے لوگوں کے رہن سہن کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔
انقرہ کا ایتھنو گرافیکل میوزیم قدیم قلعے کے ساتھ ہی بنا ہوا تھا۔ ٹکٹ کافی مہنگا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک پرشکوہ عمارت ہمارے سامنے تھی۔ اس عمارت کی تعمیر سلطان محمد فاتح کے وزیر اعظم محمود پاشا نے 1455۔73 14ء کے زمانے میں کروائی تھی۔ یہ دراصل اس دور کی مین مارکیٹ تھی جس کے باہر کی جانب 102 دکانیں تعمیر کی گئی تھیں ۔ 1881ء میں اس عمارت میں آگ لگ گئی تھی۔مصطفی کمال کے زمانے میں اس عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
[جاری ہے ]