مضامین قرآن (10) دلائل آخرت: ربوبیت کی دلیل ۔ ابو یحییٰ
دلائل آخرت: ربوبیت کی دلیل
ربوبیت اور احتساب
ربوبیت زندگی کو جنم دینے، اسے برقرار رکھنے اور اس کی بقا اور تحفظ کو یقینی بنانے کا عمل ہے۔ اس کی سادہ ترین شکل ہم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح اس کے والدین نے اسے وجود بخشا، اس کی پرورش کا اہتمام کیا اور ایک ننھی سی کونپل کو اپنی محنت و شفقت سے سینچ کر تناور درخت بنادیا۔ والدین کی یہی وہ مہربانی ہے جس کی بنا پر کوئی اولاد اگر والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے تو معاشرے کی نگاہ میں قابل الزام ٹھہرتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال آجر اور اجیر کا رشتہ ہے۔ ایک انسان جب ملازمت کرتا ہے تو اس کا مالک اسے ہر ماہ ایک مقررہ رقم بطور معاوضہ دیتا ہے ۔ انسان اس رقم سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے۔ یہ تنخواہ اگر ملازم کا حق ہے تو اس کے جواب میں مالک کی بات ماننا، جو ذمہ داری دی جائے اسے پورے طور سے بجالانا ملازم کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ملازم اگر یہ نہیں کرتا تو پھر مالک کا حق بنتا ہے کہ اس کا حتساب کرے۔ یہ احتساب آج نہیں ہو گا تو کل ہو گا۔ مگر جب کبھی ہو گا تو ایک کام چور ملازم کو بہرحال اس کی قیمت دینی پڑے گی۔ رہے جو لوگ محنت اور دیانت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے، انہیں اصل تنخواہ کے ساتھ انعام و اکرام اور ترقی ملنا بھی ایک لازمی حق بن جاتا ہے ۔
کائناتی ربوبیت اور اخروی جوابدہی
ربوبیت کی یہی داستان کہیں اعلیٰ سطٰح پر اس کائنات میں انسان کے حوالے سے صبح شام دہرائی جا رہی ہے ۔ انسان ایک ایسی کائنات میں جیتا ہے جو ہر پہلو سے حیات کے لیے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کائنات میں پانی ہے نہ ہوا، سبزہ ہے نہ غذا، دانہ ہے نہ دوا۔ یہاں مجرد خلا ہے، دہکتے ستارے ہیں، یخ بستہ اجسام ہیں۔ یہاں درجہ حرارت اس حد تک کم ہے کہ زندگی کی حرارت کو جما دے یا پھر اتنا زیادہ ہے کہ زندگی کی ہر رمق کو جلا کر مٹا سکتا ہے۔ اس قاتل کائنات کے ہر ذرے پر زندگی کے لیے صرف ایک ہی فیصلہ۔ موت کا فیصلہ۔ رقم ہے۔ زندگی کے اس قبرستان میں کرہ ارض ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔جہاں زندگی اپنے تمام تر حسن اور تنوع کے ساتھ جلوہ فرما ہے۔ یہ زندگی اس لائف سپورٹنگ سسٹم کا نتیجہ ہے جو اس کرہ ارض کو نہ صرف زندگی کی جنم بھومی بناتا ہے بلکہ اس کی بقا اور تحفظ بھی یقینی بناتا ہے ۔ اس انتظام کے گوناگوں پہلوؤں کو قرآن مجید نے با ر بار دہرایا ہے وہ ہر دور کا انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ۔ مگر دور جدید کا انسان اپنے غیر معمولی علم کی بنا پر ہر دور سے بڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ اس کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس کرہ ارض پر ان گنت اہتمام کیے گئے ہیں ۔
قرآن مجید زندگی کی بقا اور تحفظ کے ان انتظامات کی نہ صرف یاد دہانی کراتا ہے بلکہ انسان کو جو خصوصی شرف دیا گیا، علم و عقل، سمع و بصر اور اختیار و ارادہ کی جو اضافی صلاحیتیں دی گئیں اور جس طرح تمام کائنات کوانسان کے لیے مسخر کیا گیا ہے، ان کی تفصیل کرتا ہے۔ وہ انسانی ضروریات ہی کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان کہ ذوق جمال کی تسکین کے لیے بھی اس دنیا میں کیا کیا غیر معمولی انتظام کیے گئے ہیں ۔
قرآن مجید ربوبیت کے وہ نمایاں اہتمام انسان کے سامنے رکھتا ہے جن کو انسان صبح و شام دیکھتا ہے اور پھر یہیں سے آخرت پر استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سب کچھ گیا ہے تو پھر یہ طے ہے کہ بدلے کا دن آ کر رہے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ربوبیت کے ساتھ جواب دہی لازم و ملزوم ہے۔ جس طرح شروع میں آجر و اجیر کی مثال میں ہم نے دیکھا کہ ملازم کو تنخواہ اگر دی جا رہی ہے تو بہرحال اس سے پوچھا جائے گا کہ تفویض کردہ کام اس نے کیا یا نہیں۔ جنھوں نے یہ کام کیا ان کی تحسین و ترقی واجب ہے اور جنھوں نے غفلت اور سرکشی برتی، ان کی گرفت بہرحال کرنے کا ایک کام ہے۔ یعنی اس کا ایک وقت معین ہے۔ اور وہی روز قیامت ہے جب ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا۔
قرآنی بیانات
مذکورہ بالا تمام حقائق کو قرآن مجید میں جگہ جگہ دہرایا گیا ہے ۔ ربوبیت اور پرورش کا ذکر کر کے اس سے قیامت پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے ۔
’’کیا ہم نے زمین کو گہوارہ اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟ تم کو جوڑے جوڑ ے نہیں پیدا کیا؟ تمہاری نیند کو دافعِ کلفت نہیں بنایا؟ رات کو تمہارے لیے پردہ اور دن کو وقتِ معاش نہیں بنایا؟ تمہارے اوپر سات محکم آسمان نہیں بنائے اور اس کے اندر ایک روشن چراغ نہیں رکھا؟ اور کیا ہم نے پانی سے لبریز بدلیوں سے موسلا دھار پانی نہیں برسایا کہ اس کے ذریعہ سے اگائیں غلہ اور نباتات اور گھنے باغ؟۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ بے شک فیصلہ کے دن کا وقت مقرر ہے ۔
(سورہ نبا 6-17 :78 )
’’اور زمین کو ہم نے بچھایا اور ہم نے اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں تناسب کے ساتھ اگائیں اور ہم نے اس میں تمہاری معیشت کے سامان بھی رکھے اور ان کی معیشت کے بھی جن کو تم روزی نہیں دیتے۔ اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں لیکن ہم اس کو ایک معین اندازے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔
اور ہم ہی ہواؤں کو بارآور بنا کر چلاتے ہیں پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں اور یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم اس کے ذخیرے جمع کر کے رکھتے ۔
اور بے شک یہ ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی سب کے وارث ہیں اور ہم ان کو بھی جانتے ہیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کو بھی جانتے ہیں جو بعد میں آنے والے ہیں اور بے شک تمہارا خداوند ہی ہے جو ان سب کو اکٹھا کرے گا۔ بے شک وہ علیم اور حکیم ہے ۔ (سورہ الحجر19-25 :15)
’’وہی جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارا بنایا اور اس میں تمہارے لیے راہیں نکالیں اور آسمان سے پانی برسایا، پس ہم نے اس سے مختلف نباتات کی گوناگوں قسمیں پیدا کر دیں ۔ کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو چراؤ۔ اس کے اندر اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں ۔ اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے ۔‘‘
(طہ 53-55 :20)
’’ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تم دیکھتے دیکھتے بشر بن کر روئے زمین پر پھیل جاتے ہو اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے پیدا کیے تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی ودیعت کی۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو غور کرنے والے ہیں ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی خلقت اور تمہاری بولیوں اور تمہارے رنگوں کا تنوع بھی ہے۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں اصحاب علم کے لیے۔ اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن میں تمہارا سونا اور اس کے فضل کا طالب بننا ہے ۔ ۔ ۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔ اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ چیز بھی ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جب وہ تم کو زمین سے نکلنے کے لیے ایک ہی بار پکارے گا تو تم دفعتہ نکل پڑو گے ۔‘‘ (روم 20-25 :30)
یہ چند مقامات بطور مثال نقل کیے گئے ہیں جن سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جو پالنہار ہے وہ ایک روز نعمتوں کے حساب کے لیے ضرور جمع کرے گا۔ جبکہ انسان کی ذات پر براہ راست کی گئی نعمتوں کا ذکر اور ان سے آخرت پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے ۔
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھ اور دِل بنائے ، پر تم بہت کم شکر گزار ہوتے ہو! اور وہی ہے جس نے تمہیں زمیں میں پھیلایا ہے پھر تم اسی کے پاس اکٹھے کیے جاؤ گے ۔ اور وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے اختیار میں ہے رات اور دن کی آمد و شد تو کیا تم سمجھتے نہیں !‘‘ (المومنون 78-80 :23)
انسان کی تخلیق، اس کی پرورش کے کائناتی انتظام کے ساتھ یہ بھی بیا ن کیا گیا ہے کہ انسان کے تحفظ کا مستقل اہتمام بھی کائنات میں جاری ہے ۔
’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔‘‘ (انبیا 32 :21)
’’اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں ۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اس کے بعد کوئی اور ان کو تھامنے والا نہیں بن سکتا۔ بے شک وہ نہایت حلیم و غفور ہے ۔
(فاطر41 :35)
تخلیق، بقا، تحفظ اور تسکین؛ ربوبیت کے یہ وہ تمام پہلو ہیں جو اس بات کی طرف انسان کو توجہ دلاتے ہیں کہ یہ سب پا کر انسان کو بے پروا نہیں بلکہ ذمہ دار ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ایک دن آئے گا جب نعمت دینے والا سرکشوں کو سزا اور وفاداروں کو جزادے گا۔ ربوبیت کا یہی انتظام آخرت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ [جاری ہے ]