دیے سے دیا جلے گا تو روشنی ہو گی ۔ شمائلہ عثمان
آج ماجد کو دیکھ کر مجھے دس سال پہلے کا اپنا وقت یاد آ گیا۔ میں بھی بالکل اسی طرح اعلیٰ ڈگری کے ساتھ بہترین تراش خراش کا لباس پہنے اپنی برتری کے زعم کے ساتھ آفس میں داخل ہوا تھا۔ رضوان صاحب پر پڑنے والی پہلی ہی نگاہ نے انہیں ریجیکٹ کر دیا تھا۔ معمولی شکل و صورت ، ڈھیلا ڈھالا لباس جو ان کی شخصیت کو میری نظر میں مزید معمولی بنا رہا تھا۔ چہرے پر پر اعتماد مسکراہٹ اور سکون دیکھ کر دل میں سوچا ’’ اس روپ پر یہ غرور‘‘ واہ واہ!
تمام اسٹاف ان کی بے حد عزت کرتا تھا اس لیے کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا لیکن اپنے رویہ کی بیزاری ان پر کھل کر ظاہر کر دی تھی۔ اس کے باوجود ان کی خوش اخلاقی میں قطعی کوئی فرق نہ آیا لیکن وقت کی مہربانی نے صحیح اور غلط کو چھان کر الگ کر دیا۔ ان کی رہنمائی نے میرے کئی بگڑے کام بنا دیے۔ پہلے ان کی ٹپس سینیئر ہونے کی وجہ سے زبردستی نہ چاہتے ہوئے بھی ماننی پڑتی تھیں ، لیکن چند مہینوں میں ہی میں بھی دیگر اسٹاف کی طرح دل سے ان کی عزت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ وہ ہر ایک سے یکساں مخلص تھے اور اسی لیے کوئی ان کے پیچھے بھی ان کے خلاف رائے نہیں دیتا تھا۔ یہ سب کچھ ان کے اعلیٰ اخلاق اور نیک نیتی کی وجہ سے تھا۔ ان کی ذات کے بے شمار مثبت پہلو اپناتے ہوئے نہ صرف اپنی زندگی کی ان گنت مشکلات پر قابو پا لیا بلکہ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کیں ۔ انا اور غرور کی دیوار گراتے ہی زندگی کی آدھی سے زیادہ مشکلات خود ساختہ محسوس ہوئیں۔ اب لوگوں کی صورت سے زیادہ سیرت پر بھروسہ کرنا سیکھا۔ مثبت انداز فکر نے رویوں کو مثبت کرنا سکھایا۔
آج یہی کچھ ماجد کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ اس یقین اور اطمینان کے ساتھ کہ اس کو بھی اپنی راہ کا مسافر بنانا ہے۔ دیے سے دیا جلانا ہے ، کارواں آگے بڑھانا ہے۔