مرد اور خواتین کا لباس ۔ ابویحییٰ
کچھ عرصے سے ہندوستان میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات بڑی تعداد میں پیش آ رہے ہیں۔ جبکہ خواتین کو ہراساں کرنے، جملے کسنے اور گھورنے وغیرہ کا معاملہ تو اتنا زیادہ ہے کہ وہ کسی اعداد وشمار کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ اس طرح کے واقعات کے پیچھے ہندوستانی مردوں کا یہ ذہن کام کرتا ہے کہ جو خواتین خود کو نہیں ڈھانک کر رکھتیں وہ مردوں کو اس طرح کی چیزوں پر خود ہی آمادہ کرتی ہیں۔ چنانچہ اس سوچ کے ردعمل میں ہندوستان میں ایک مقبول تحریک یہ پیدا ہوگئی ہے کہ خواتین جیسا چاہے لباس پہنیں، یہ ان کا حق ہے۔ چنانچہ مردوں کو اپنی یہ سوچ بدلنا چاہیے کہ وہ انھی خواتین کی عزت کریں گے یا تحفظ دیں گے جو خود کو ڈھانک کر رکھیں گی۔ یہ وہی نقطہ نظر ہے جو مغرب میں رائج ہے اور جس کی بنا پر خواتین کسی بھی طرح کا لباس پہنیں، عام حالات میں مغرب میں کوئی ان کو گھور کر نہیں دیکھتا۔ ایسا کرنا سماجی طور پر بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے زیر اثر ہندوستان میں جاری اس تحریک کے اثرات اب ہمارے معاشرے پر بھی ہورہے ہیں۔ مگر اس سے یک طرفہ طور پر یہ ذہن بنتا ہے کہ مردوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے لیکن خواتین کے لیے کسی قسم کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ وہ جو چاہیں پہنیں اور جس طرح چاہے رہیں، یہ ان کا حق ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اپنی نوجوان نسل کے سامنے اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا جائے جو ایک انتہائی متوازن نقطہ نظر ہے۔
اسلام کی تعلیمات مذکورہ تحریک کے اس پہلو سے تو پوری طرح اتفاق کرتی ہے کہ خواتین کا لباس جیسا بھی ہو، مردوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت خود کرنا ہو گی۔ یہ کہ خواتین کے لباس سے قطع نظر ان کو اپنے جذبات و احساسات پر خود کنٹرول کرنا ہو گا اور اپنے لباس کو پاکیزہ رکھنا ہو گا۔ ان تعلیمات کو اصطلاحا غض بصر اور حفظ فروج کہا جاتا ہے۔ ہمارے برصغیر میں جہاں مردوں کا تصور ہی یہی ہے کہ جو خواتین خود کو نہ ڈھانکیں، ان کودیکھنا، چھیڑنا وغیرہ ہمارا حق ہے، اسلامی تعلیم کے اس پہلو کو نمایاں کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہم بھی اپنے معاشرے کے مردوں کی اصلاح کی غرض سے اس چیز پر خاص طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں۔
مگر ساتھ میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے خواتین کو غض بصر اور حفظ فروج کے یہی احکام دے کر ان سے مزید یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے نسوانی حسن اور ذوق آرائش دونوں کو اجنبی مردوں کے سامنے نمایاں نہ کریں۔یہاں اہل مغرب اور اہل ہند سے اسلام کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ مرد تو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور خواتین کو ہر طرح کا لباس پہننے کی مکمل آزادی ہے۔ اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں۔ یہ صالح معاشرے کی بنیادی شرط ہے ۔
خواتین کے لباس کے حوالے سے مسلمان اہل علم میں ابتدا ہی سے اختلاف چلے آ رہے ہیں۔ ایک نقطہ نظر وہ ہے جسے سعودی عرب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو ملائشیا وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن سخت نقطہ نظر کو چھوڑ کر نسبتاً نرم نقطہ نظر کو بھی اختیار کر لیا جائے تب بھی وہ خواتین کواپنی زینت اور نسوانیت دونوں کی نمائش سے روکتا ہے۔ وہ بے حجابی، جسم کی نمائش اور عریانی کے ہر شائبے سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات اپنی ہر تعبیر اور توجیہ میں بہرحال مغرب اور ہندی تہذیب کی روایات سے ایک مختلف جگہ پر کھڑی ہیں۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کے اس امتیاز اور توازن کو نمایاں کیا جائے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کا یہی وہ توازن ہے جو پاکیزہ معاشرت کا ضامن ہے اور اسی کی ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تلقین کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کیا جائے گا تو آخر کار مرد سماجی دباؤ میں آ کر اپنی نگاہیں نیچی کر لیں گے ، مگر خواتین کی دنیا و آخرت ویسے ہی خطرے میں رہیں گی جیسے پہلے تھیں۔