بحث سے ایمان و اخلاق تک ۔ ابویحییٰ
برسوں گزر گئے کہ علمی مباحث سے خود کو ہٹا کر ایمان و اخلاق تک محدود کر دیا ہے۔ پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم کا بھلا ہوا کہ اس نے اس فیصلے کی صحت پر دل کو مزید مستحکم کر دیا۔
پاکستان عرب کی وادی’’غیر زی زرع‘‘ نہیں، پانچ دریاؤں اور چار موسموں کی سرزمین ہے جسے قدرت نے زراعت اور باغبانی کے لیے بہترین جغرافیے سے نوازا ہے۔ میدان ہی نہیں، پہاڑ اور صحراؤں کے پھل بھی یہاں بکثرت اگائے جاتے ہیں۔ جو کمی رہ جاتی ہے وہ پڑوسی ملکوں سے پوری ہوجاتی ہے۔ ایسے ملک میں جب تیس روپے کلو ملنے والا پھل رمضان میں اچانک نوے روپے کلو ہوجائے تو اس چمتکار کا اہم سبب وہ کارٹل ہوتا ہے جو سونے کے دو پہاڑ ملنے کے بعد تیسرے کی جستجو شروع کر دیتا ہے اور جس کا پیٹ صرف قبر کی مٹی بھرے گی۔
اس مافیا کے خلاف جب قوم نے خود کو منظم کیا تو قوم کے اس اتحاد کے خلاف ان بعض اذہان کو دیکھ کر دل پھٹ گیا جن کے ذہن و قلم پر دانش کا کچھ گمان ہوتا تھا۔ ان دوستوں کا سرمایہ استدلال کیا تھا؟ وہی جو کل تک دہشت گردی کے حامی اس ملک میں دہشت گردوں پر سے توجہ ہٹانے کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔ یعنی جب کبھی دہشت گردی زیر بحث آتی، فوراً کچھ پریشان حال مسلمانوں کی تصویریں سامنے کر دی جاتیں۔
جب دہشت گردی کا عفریت زیر بحث ہو تو کچھ مظلوموں کی تصویریں لگا کر بات کا رخ موڑ دینا اور جب مہنگائی کے جن کو قابو میں لانے کی کوشش کی جائے تو پھل فروشوں کی مظلومیت کا احوال سنا کر قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرنا، معذرت کے ساتھ، معقولیت نہیں پروپیگنڈا ہے۔
ہم نے برسوں پہلے یہ سیکھ لیا تھا کہ پروپیگنڈے کی اس دنیا میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ایمان، اخلاق، اقدار اور معقولیت کی صدا بلند کی جائے۔ اللہ نے چاہا تو ایک نئی قوم یہیں سے پیدا ہوگی جو ذاتی رجحانات اور تعصبات سے بلند ہوکر معقولیت کی بنیاد پر جینا سیکھ لے گی۔