لیجیے انقلاب آگیا ۔ ابویحییٰ
ہمارے ذرائع و وسائل ایک طویل عرصے سے انقلاب کا انتظار جاری ہے۔ اس انتظار کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ذرائع وسائل پر، دیگر بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح، استحصالی طبقات کا قبضہ ہے۔ فوج، جاگیردار، سیاستدان، سرمایہ دار اور بیورو کریسی میں پایا جانے والا استحصالی عنصر اس ملک کی سیاسی اور معاشی شہہ رگ پر قابض ہے۔ دوسری طرف عوام کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ غریب ہر دور میں چاہے وہ فوجی دور ہو یا عوامی سیاسی دور، یکساں طور پر پستا رہا ہے۔ حکومتیں بدلنے سے عوام کی تقدیر کبھی نہیں بدلی۔ ہر آنے والا پچھلے پر لعنت کرتا ہے، نئی روشنی اور ترقی کی نوید دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی ہوتی ہے۔ عوام کے کچلے جانے کا یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
اس عرصے میں ہمارے مذہبی اور غیر مذہبی دانشور قوم کو ایک عظیم انقلاب کی نوید دیتے رہے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ جس طرح روس، فرانس اور ایران میں انقلاب آیا تھا، اسی طرح پاکستان میں بھی عوامی انقلاب کی لہر استحصالی طاقتوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گی۔ انقلاب کی لہر کو پیدا کرنے کا جو طریقہ انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ وہ استحصالی طبقات کے خلاف غصے کی وہ آگ بھڑکائیں کہ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی تپش آتش فشاں بن کر دہکنے لگے۔ قلم کے جوش اور لہجے کی گرمی سے عوامی جذبات کو برانگیختہ کریں۔ اپنے فکر و نظر کے ہر سوتے کو صرف لوگوں میں ردعمل کی نفسیات کے فروغ کے لیے وقف کر دیں۔
چنانچہ اس پس منظر میں ہر قلمکار اور ہر مقرر کوشش کرتا ہے کہ وہ ان طبقات کے خلاف لوگوں کے ذہن میں نفرت کا زہر انڈیلتا رہے۔ ان کے ظلم، بدعنوانیوں، ریشہ دوانیوں سے عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتا رہے۔ اس مقصد کے لیے صاحب اقتدار شخص کو عام طور پر ان استحصالی طبقات کا نمائندہ بنا کر سامنے لایا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ عوام کو بتاتے ہیں کہ ان کا ہر حکمران اصل میں حکمران نہیں بلکہ شیطان ہے۔ اس کے دور میں کوئی خیر نہیں اور اس کی ذات سے کسی کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس قوم کی تاریخ یہی ہے کہ جو شخص حکومت میں آجاتا ہے اس کی برائیاں لوگوں کو ازبر ہوجاتی ہیں اور اس کا ہر اچھا کام اس کا ذاتی مفاد ہی لگنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ہر سیاسی اور فوجی حکومت سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ سن ستتر تک عوامی تحریک کی مدد سے اور اس کے بعد عوام کی خاموش رضامندی کے ساتھ ہر حکومت بدل جاتی ہے۔ لیکن حکومتی تبدیلی چونکہ عوامی انقلاب کے مترادف نہیں ہوتی اس لیے وہ ایک دفعہ پھر نئے آنے والے پر اپنی توپوں کے دہانے کھول دیتے ہیں۔
لیکن ان مفکرین اور دانشوروں کو یہ نہیں معلوم کہ لوگوں کے ذہنوں میں منفی سوچ کا جو بیج انہوں نے لگایا تھا، وہ اب برگ و بار لانے لگا ہے۔ انقلاب آگیا ہے۔ مگر یہ ایک بہت برا انقلاب ہے۔ لوگوں نے اپنے معاملات خود ٹھیک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مگر اس کا طریقہ یہ نہیں کہ استحصالی طبقات کے خلاف وہ اٹھیں، بلکہ وہ خود استحصالی طبقات میں شامل ہوگئے ہیں۔ ملازمت پیشہ لوگوں نے رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے سے جبکہ تاجروں نے ملاوٹ اور گرانی کے ذریعے سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ مڈل کلاس کے ان دو نمایاں طبقات کے بعد جو غریب غربا رہ گئے تھے، انہوں نے اسٹریٹ کرائم کو اپنے ہر مسئلے کا حل بنا لیا ہے۔ سوسائٹی کے باقی لوگوں کے پاس سوائے صبر اور خود کشی کے کوئی اور چارہ نہیں بچا۔ سو سارے مفکرین اور دانشوروں کو مبارک ہو، انقلاب آگیا ہے۔
مگر یہ راستہ تباہی کا راستہ ہے۔ ہم اس راستے کے ہر موڑ اور ہر رہگذر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ یہ غلط راستہ ہے۔ نفرت نہیں بلکہ محبت، بدلہ نہیں بلکہ درگزر، برائی نہیں بلکہ بھلائی، یہی طریقہ ہے جو قوم کی نجات کا راستہ ہے۔ ساری دنیا میں اگر برائی پھیل جائے تب بھی ہمیں نیکی کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمیں اپنا بدلہ اپنے رب سے لینا ہے، انسانوں سے نہیں۔ہمیں آخرت چاہیے، دنیا نہیں۔ ہمیں حبیب خداؐ کے راستے پر چلنا ہے، کمیونسٹوں کے طریقے پر نہیں۔
اسی سے اصل انقلاب آئے گا۔ اسی سے اصل خیر پھوٹے گی۔ اسی سے صبح طلوع ہوگی۔