کیا آپ کو اپنے بچوں کی پروا ہے؟ ریاض احمد سید
ماشاء اللہ آپ بال بچوں والے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے آپ کے دوہتے پوتے بھی ہوں۔ فرشتوں جیسے معصوم بچے جن کی پرورش کسی زمانے میں نہایت لاڈ پیار اور احتیاط کے ساتھ ہوتی تھی۔ مشترکہ خاندانی نظام برقرار تھا اور دیکھنے والی بہت سی آنکھیں ارد گرد ہوا کرتی تھیں۔ مگر جب سے جدیدیت در آئی ہے اور اپنی زندگی خود سے جینے کا رواج ہوا ہے، کسی قسم کی روک ٹوک اور مداخلت کے بغیر۔ تو وہ جو کہتے ہیں نا، کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ایسے جوڑوں کو پرائیویسی تو شاید مل گئی ہو، مگر اس کی جو قیمت چکانا پڑ رہی ہے، اس کا شاید انہیں ٹھیک سے ادراک نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ’’میں تے تیرا ڈھولن ماہی‘‘ قسم کی فیملی میں جب بچہ تشریف لاتا ہے، تو اسٹیٹس بلند کرنے کی دوڑ میں شریک ملازمت پیشہ جوڑے کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا کہ اس کی نگہداشت کے لیے کوئی ٹین ایج لڑکا/لڑکی ملازم رکھ لیں۔ یہ ملازم لوگ باقی تو جو بھی کرتے ہوں گے، راقم کو اس سے سروکار نہیں۔ البتہ سب سے بڑا ظلم بچے کے ساتھ یہ کرتے ہیں کہ سارا سارا دن معصوم کو ٹی وی کے سامنے لٹائے یا بٹھائے رکھتے ہیں۔ کیونکہ خود ٹی وی میں جان پھنسی ہوتی ہے اور بچے کو مصروف کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔ اب ان کا کام صرف یہ رہ جاتا ہے کہ بھوک لگی تو منہ میں فیڈر دے دیا، یا ضرورت ہوئی تو پیمپر بدل دیا۔ ان کے ساتھ کھیل کود، بات چیت اور زبانی ابلاغ کا سلسلہ بالکل بند۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ راقم نے ایسے کئی بچوں کو ذہنی طور پر مفلوج ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جو نہ صرف بول نہیں سکتے۔ بات سمجھنے میں بھی دشواری محسوس کرتے ہیں۔ والدین کو اول تو پتہ ہی نہیں چلتا، جب چلتا ہے تو دیر ہوچکی ہوتی ہے، اور ان معصوم جانوں کا نارمل زندگی کی طرف لوٹنا مشکل ہی نہیں، بعض اوقات ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔
یہ مسئلہ ہمارے ہاں ہی نہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ایک عذاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جس پر غور و فکر کے لیے چند برس پہلے بچوں کے امراض کے ماہرین بوسٹن میں سر جوڑ کر بیٹھے تھے، اور سب کی متفقہ رائے تھی کہ اگر آپ بچے کے ذہن کی صحیح نشونما چاہتے ہیں تو ٹی وی کا پلگ نکال دیں اور گرد و پیش سے ہر قسم کی سکرین ہٹا دیں۔ خاص طور پر دو برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے تو یہ سب زہر قاتل سے کم نہیں۔ چیختی چنگھاڑتی اسکرینوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ان کے ساتھ کھیلیں، چھوٹی چھوٹی باتیں کریں اور ان کے تجسس کا نوٹس لیں۔ منہ سے ادا ہونے والے الفاظ سے بچہ جس تیزی کے ساتھ سیکھتا ہے، اس کا آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ اسکرین سے برآمد ہونے والی آوازیں اس کے ذہن کی اسکرین کو دھندلا جاتی ہیں اور وہ کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسکولنگ میں تاخیر ہی نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہ کمی کوتاہی زندگی بھر اس کے ساتھ چلتی ہے‘‘
دوسرا ظلم بچوں کے ساتھ ان کی جسمانی صحت کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ بعض ماؤں کے پاس تو واقعی وقت نہیں ہوتا اور بعض محض فیشن کے طور پر کچن سے پرہیز کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بچوں کو باہر کے کھانے کی لت پڑتی ہے۔ جو بچوں کی اشیائے خور و نوش کے ملٹی بلین انڈسٹری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ بازار میں ایسے ایسے چٹخارے دار آئٹم میسر ہیں کہ سال بھر کا بچہ بھی ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے اور اس الم غلم کے علاوہ اس کے گلے سے کوئی چیز نیچے نہیں اترتی۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ بے پناہ چینی، نمک، گھی، چربی اور کیمیکلز اور خوش نما رنگوں کا ملغوبہ اشیائے خور و نوش بچوں کے لیے زہر سے بڑھ کر ہیں۔ غذا کے نام پر لی جانے والی ان اشیاء میں غذائیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ البتہ انہیں بیماریوں کی پوٹلی ضرور کہا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا اسے جنک فوڈ کے نام سے یاد کرتی ہے جس کا سیلاب کوئی بچاس برس پہلے مغرب سے ہی امڈا تھا۔ مگر اب وہ سیانے ہوچکے ہیں اور جنک فوڈ سے تائب بھی۔ اور ہم ہیں کہ اسے اسٹیٹس سمبل بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کا سامان بدستور کیے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جسمانی مشقت سے محروم بچے الم غلم کھا کر ایک بار بد وضع ہوگئے تو زندگی بھر سمارٹ ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ گول مٹول بچپن تو اچھا لگتا ہے، مگر پھولی پھولی سی جوانی سے گھن آتی ہے اور رہا بڑھاپا تو اس کا تو تصور ہی روح فرسا ہے۔ بڑھاپے میں اگر توانا اور فٹ رہنا مقصود ہو تو اس کی تیاری بچپن سے کرنا ہوتی ہے بدقسمتی سے اسکولوں میں کھیل کے میدان نہ رہے اور یوں بچوں میں کاہلی در آئی۔ رہی سہی کسر سیل فونز اور کمپیوٹر ایکٹیویٹی نے نکال دی۔
الحمدللہ، ہماری نسل کا بڑھاپا نسبتاً خوشگوار ہے، کیونکہ ہم نے ایکڑوں میں پھیلے وسیع و عریض گراؤنڈز والے اسکولوں میں تعلیم پائی تھی۔ گاڑیوں کا سیلاب ابھی نہیں آیا تھا۔ سو سائیکل بھی چلاتے تھے اور پیدل بھی چلتے تھے۔ ملازمین کے ہوتے ہوئے بھی ہاتھ پاؤں ہلانے کی عادت ڈالی جاتی تھی۔ دس دس مرلے والے ڈربہ نما، مگر بڑے ناموں والے اسکولوں میں پڑھنے والے، گاڑی سے پاؤں نیچے نہ رکھنے والے، اور بات بات پر ملازم کو آواز دینے والے جدید نونہالوں کے مستقبل کا تصور کر کے ہول اٹھتا ہے۔ ماں باپ کو اولاد سے یقینا محبت ہوتی ہے، اگر وہ ان کا بھلا چاہتے ہیں تو انہیں اس جعلی ماحول سے نکالیں۔ اسکولوں میں انتظام نہیں تو باہر میدانوں میں کھیلنے کے لیے بھیجیں۔ کم از کم سڑ ک پر سو، پچاس میٹر کی دوڑ ہی لگوا دیا کریں۔ انہیں گھر کا چھوٹا موٹا کھانے کی عادت ڈالیں اور قطار میں لگ کر جنک فوڈ خریدنے کے فیشن کے چکر سے نکالیں۔ اپنی چیزیں خود سنبھالنے اور اپنا کام خود کرنے کا عادی بنائیں۔ ورنہ بڑھاپا تو ظالم ہوتا ہی ہے۔ اپنے وقت کے عظیم ویٹ لفٹر اور 1956 کے اولمپکس کے رنر اپ جوئے سارٹر کچھ عرصے پہلے سپر مارکیٹ سے پانچ لٹر آئل کا ڈبہ اٹھا کر گاڑی تک لائے، تو کندھے کا جوڑ اپنی جگہ سے کھسک گیا۔ رستم زماں کی شہرت رکھنے والے نامی گرامی پہلوان، اکھاڑے میں کسرت کرتے ہوئے نوآموز پہلوان کے ڈنٹر پیلنے کے انداز سے غیرمطمئن ہوا، تو خود کر کے دکھانے کی ٹھانی، اور تیسرے ہی ڈنٹر میں زمین سے اٹھ نہ پایا تھا۔
آج کی مائیں کچھ زیادہ ہی ماڈرن اور مصروف ہیں۔ بچوں کو ملازموں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو اسٹیٹس سمبل خیال کرتی ہیں۔ شاید ان کے علم میں نہیں کہ امریکہ کی خاتون اول مشعل اوباما جب وائٹ ہاؤس منتقل ہوئیں تو سرکاری و سماجی تقریبات میں کم کم دکھائی دیتی تھیں۔ کسی نے پوچھا تو محترمہ کا جواب تھا کہ میری دونوں صاحبزادیاں امپریشل ایبل ایج میں ہیں۔ ایک دس اور دوسری سات برس کی۔ وہ اس وقت میری اولین ترجیح ہیں، آج کل میں مام انچیف Mom-in-chief کا کردار نبھا رہی ہوں۔ اور قوم کے بچوں سے رغبت کا یہ عالم کہ ان میں بڑھتی ہوئی فربہی نے ان کی نیندیں اڑا دی تھیں اور بنفس نفیس ’’بچوں میں موٹاپے‘‘ کے خلاف ملک گیر تحریک کی قیادت کی۔ بچوں میں تازہ اور صحت بخش غذا کا تصور اجاگر کرنے کی غرض سے وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان میں سبزیوں کے لیے ایک قطعہ زمین تیار کرایا۔ جہاں سبزیوں کی کاشت اور دیکھ بھال کے لیے اسکول کے بچوں کو دعوت دی جاتی ہے اور وہ منظر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے جب وہ اسکول یونیفارم میں ملبوس بچے وائٹ ہاؤس کے لان میں اپنے اگائے ہوئے آلوؤں اور ٹماٹروں کی دعوت اڑاتے ہیں۔