کامیابی کے اصول ۔ شفقت علی
آج کل نوجوانوں میں آرٹ آف لائف مینجمنٹ کی کتابیں پڑھنے اور ان موضوعات پر مقررین کو سننے کا بہت رواج ہے۔ یہ مصنفین اور مقررین اپنے قارئین اور سامعین کو متحرک کرنے کے لیے اکثر دلچسپ فرضی یا حقیقی کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ کبھی ابراہم لِنکن کے ایک ناکام سیاستدان سے کامیاب صدر بننے تک کی کہانی تو کبھی بل گیٹس کے ارب پتی بننے کی داستان۔ اسٹیفن ہاکنگ جیسے معذور لوگوں کو بھی ہمت و حوصلہ کے نمونہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی دماغی صلاحیتوں کا بہترین استعمال سیکھیں۔
بلاشبہ ان لوگوں کا مقصد اور نیت بہت اچھی ہے مگر ایک تو اِن کے ہاں کامیابی کا مفہوم صرف دنیاوی کامیابی تک محدود ہے اور دوسرے یہ کہ عام انسانوں کو ہمارے سامنے بطور رول ماڈل پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کی اصل کامیابی کا معیار صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی ہے۔ اس لیے پیغمبروں کی حیاتِ طیبہ کو مدِنظر رکھنا زیادہ بہتر ہے۔
اس حوالے سے حضرت یوسف علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ سے کچھ جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔
1۔ حضرت یوسف کو بچپن میں ان کے حاسد بھائیوں نے مرنے کے لیے اندھیرے کنویں میں پھینک دیا۔ مگر آپ پریشان اور مایوس نہ ہوئے بلکہ اللہ کی مشیّت پر صبر اور بھروسہ کیا، بہتری کی دعا کی اور امید کا دامن نہ چھوڑا۔ بالآخر اللہ نے آپ کی مدد فرمائی اور کنویں سے باہر نکال لیے گئے۔
2۔ اب جس قافلہ نے انہیں کنویں سے باہر نکالا تھا اسی نے آپ کو عزیزِ مصر کے ہاتھ بطور غلام بیچ دیا۔ آپ کی آزادی کو غلامی میں بدل دیا گیا مگر افسوس یا شکوہ کی بجائے آپ نے صبر فرمایا اور عزیزِ مصر کی خدمت اس انداز میں کی کہ اس نے آپ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔
3۔ عالمِ شباب میں زلیخا نے آپ پر ڈورے ڈالنے چاہے مگر آپ نے اپنی عفت و حیا پر آنچ نہ آنے دی۔ ردِعمل میں اس نے آپ کو جیل تک بھجوا دیا مگر آپ نے اس حادثہ کو بھی مالک کی طرف سے آزمائش سمجھا۔ جیل میں عزیزِ مصر کی ناانصافی کا رونا رونے کے بجائے آپ اپنے پیغمبرانہ مِشن (دعوت) میں مصروف ہوگئے اور ساتھی قیدیوں کی تربیت کرنا شروع کر دی۔
4۔ جب آپ جیل سے باہر آئے تو دیکھا کہ مصر قحط کے بحران کے کنارے کھڑا ہے۔ اس کٹھن صورتحال میں آپ نے مصریوں کو اس بحران سے بچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔
5۔ آپ ایک توحید پرست خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر آپ کو مصر کے مشرکانہ ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ آپ اس ماحول کا اثر لیتے یا وہاں سے کہیں دور چلے جاتے آپ نے اسی معاشرے کو اپنی فہم و فراست اور حکمت سے بدل ڈالا۔ یوں آپ نے کمال عقلمندی سے ایک مشرک معاشرے کو توحید پر جمع کیا۔
ان چند واقعات سے ہمیں پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ انسان کی زندگی اور مستقبل انسانوں کے ہاتھ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے۔ اور وہ لوگ جو مایوسی کے اندھیروں میں بھی اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اللہ اُن کے بھروسہ کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ انسان اگر شکوہ و شکایت کی بجائے لوگوں کی خدمت کو اپنا مقصد بنا لے تووہ بہت جلد معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرلیتا ہے۔
تیسرا اہم سبق یہ ہے کہ بامقصد لوگ اپنے مِشن کی تکمیل کے لیے زمان و مکان اور حالات کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ ان کی نظر ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں اپنے مقصد پر مرکوز رہتی ہے۔
چوتھا سبق یہ ہے کہ ذہین لوگ بحرانی کیفیات سے نہ تو گبھراتے ہیں اور نہ ہی ان سے فرار حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
پانچواں سبق یہ ہے کہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ اپنے ماحول سے متاثر ہونے کے بجائے خود ماحول کو متاثر کرتے ہیں۔