کامیاب والدین ۔ ڈاکٹر شہزاد سلیم
ترجمہ: محمود مرزا
موجودہ دور میں والدین اور اولاد کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اور اس فاصلے میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو چند مستثنیات کو چھوڑ کر والدین ہی اس کشمکش کے اصل ذمہ دار ہیں۔ وہ نہ اپنے بچوں پر ان کے بچپن میں کوئی خاص تو جہ دیتے ہیں اور نہ ان کی اخلاقی تربیت اور نشوونما کو اپنا اصل ہدف بناتے ہیں۔
جب تک والدین کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوتا ہے تب تک بچے کچھ بری عادات پوری طرح اختیار کرچکے ہوتے ہیں جن سے جان چھڑانا اکثر ناممکن ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک انتہائی بری عادت منشیات اور شراب نوشی کی لت ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ والدین کو ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے اوپر ہوجاتا ہے اور بچے آخری درجے میں اس لت کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔ اور پھر وہ ان بری عادات کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھاتے ہیں جن میں سے بدترین بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا، دھمکانا اور اس لت کے بھیانک نتائج سے ڈرانا ہے۔
زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ اولاد کے اس موڑ پر پہنچنے کے بعد اس نوعیت کا کوئی اصلاحی اقدام کارگر ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ تاہم والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بری عادات کسی بھی بچے میں پیدا ہوسکتی ہیں، یہاں تک کہ ان بچوں میں بھی جن کی پرورش بہت اچھے انداز میں ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کے ساتھ پیش آنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین ان پر اپنا اعتماد بحال کریں اور اس طرح کی بری عادات سے نجات دلانے میں ان کی بھرپور مدد کریں۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ اس حد تک سخت اور تلخ نہیں ہونا چاہیے کہ بچے اپنے ہی والدین سے کترانے لگ جائیں۔ وہ کچھ غلط کام ہونے پر والدین کے سامنے بیان کرنے سے خوف محسوس کریں اور بالاآخر اپنی برائیوں اور غلطیوں کو چھپانے پر مجبور ہوجائیں۔
یاد رکھیے! کامیاب ترین والدین وہ ہیں جن کے بچے اپنی ہر غلطی اور برائی کا تذکرہ کسی اور کے سامنے کرنے کے بجائے سب سے پہلے اپنے والدین سے کرتے ہیں۔