جانوروں سے بھی بدتر – جاوید چوہدری
ہسکی برفیلے علاقوں کے کتے ہیں‘ یہ سائبیریا‘ مشرقی یورپ اور قطب شمالی میں پائے جاتے ہیں‘ بھیڑیے کی نسل سے ہیں‘ جسمانی لحاظ سے طاقتور ہوتے ہیں اور سردی اور بھوک برداشت کر جاتے ہیں‘ برفیلے علاقوں کے لوگ انھیں برف گاڑی میں جوت کر ان سے بار برداری کا کام لیتے ہیں اور ہسکی کتے لوگوں اور سامان کو گھسیٹ کر میلوں دور لے جاتے ہیں۔
میں خود بھی پولینڈ‘ فن لینڈ اور ناروے میں ہسکی رائیڈز انجوائے کرچکا ہوں‘ یہ کتے واقعی آٹھ دس من وزنی اشیاء کو پہاڑوں اور وادیوں میں آسانی سے گھسیٹ لیتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے دنیا میں کتوں کی پانچ سو نسلیں ہیں مگر یہ کام صرف ہسکی کیوں کرتے ہیں؟ آپ کا جواب ہوگا یہ جسمانی لحاظ سے زیادہ تگڑے ہوتے ہیں‘ آپ کا جواب غلط ہے کیوں کہ ہسکی کتوں میں طاقت کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔
ماسٹف‘ روٹ ویلر اور جرمن شیفرڈ ان سے طاقتور ہوتے ہیں‘ آپ اب کہیں گے ہسکی برف میں زیادہ دیر تک سروائیو کرسکتے ہیں‘ آپ کا یہ جواب بھی غلط ہے‘ کتوں کی آٹھ برفانی قسمیں ہسکی کے مقابلے میں زیادہ دیر تک برف میں زندہ رہتی ہیں‘ آپ اس کے بعد یقیناً یہ کہیں گے ہسکی زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔
آپ کا یہ جواب بھی غلط ہے‘ کتوں کی تمام نسلیں وفادار ہوتی ہیں جب کہ چھ قسم کے کتے وفاداری میں تمام جانوروں اور انسانوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہسکی ان چھ نسلوں میں شمار نہیں ہوتے لہٰذا پھر یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے انسان صرف ہسکی کتوں کو برف میں گاڑی کے آگے کیوں جوتتے ہیں؟ اس کی واحد وجہ ٹیم ورک ہے۔
ہسکی کتوں کی واحد نسل ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گاڑی کھینچ لیتی ہے جب کہ کتوں کی باقی نسلوں میں سے کسی میں ٹیم ورک کی اہلیت نہیں‘ آپ سو کتوں کو اکٹھا کر لیں‘ آپ انھیں لاکھ ٹریننگ دے لیں لیکن یہ مل کر کوئی ایک ٹاسک مکمل نہیں کرسکیں گے‘ یہ چند منٹوں میں ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے۔
یہ درست ہے کتوں کوایک جگہ اکٹھا رکھا جاسکتا ہے‘ انھیں ٹرینڈ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ہم کتوں کو کسی ایک ٹاسک پر نہیں لگا سکتے مثلاً ہم کتوں کو مل کر دیوار گرانے یا مل کر ریڑھی کھینچنے کے لیے تیار نہیں کرسکیں گے اور یہ صرف کتوں کا ایشو نہیں ہے۔
کسی بھی جانور میں کسی خاص ٹاسک کے لیے ٹیم ورک کی اہلیت نہیں ہے‘ یہ جب بھی کام کرتے ہیں انفرادی سطح پر کرتے ہیں‘ ایک گھوڑا اکیلا اپنے مالک کے لیے جان دے دے گا لیکن دس گھوڑے مل کر یہ کام نہیں کریں گے‘ ایک پالتو طوطا‘ پالتو شیر اور پالتو کبوتر آپ کے اشارے پر آگ میں کود جائے گا‘ یہ دشمن کے کان سے میل تک نکال لائے گا لیکن آپ اگر چاہیں دس پندرہ شیر‘ کبوتر یا طوطے مل کر کوئی مشین چلا لیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے یہ صفت صرف انسان کو عطا کی ہے‘ صرف ہمارے اندر ٹیم ورک کی بے انتہا خوبی ہے اور یہ زمین پر انسان کی بقا کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے‘انسان اگر اس وقت مشرق سے مغرب اور زمین سے چاند تک موجود ہے تو اس کی وجہ ٹیم ورک ہے‘ ہم انسان مختلف رنگ‘ نسل‘ زبان‘ قد کاٹھ اور نظریات کے حامل لوگوں کی ٹیم بنالیتے ہیں اور پھر دن رات ایک کر کے اپنا ٹاسک مکمل کرلیتے ہیں اور یوں زندگی میں قدم قدم آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
آپ انسان کی کسی کامیاب ایجاد یا کسی کارنامے کو لے لیں آپ کو اس میں ٹیم ورک یا اجتماعی کوشش نظر آئے گی اور آپ کسی دن انسان کے ناکام منصوبوں کا تجزیہ بھی کر لیں آپ کو ان کے پیچھے ٹیم ورک کی کمی ملے گی چناں چہ ہم انسان اگر کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں۔
ہم اگر کسی شعبے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں یا ہم اگر کوئی ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک ہی آپشن ہوتا ہے اور وہ ہے ٹیم ورک‘ ہم ٹیم بنائیں‘ ٹیم کو چلانے کا سسٹم وضع کریں‘ کسی ایک شخص کو اس ٹیم کا کمانڈر بنائیں‘ گول اور ٹارگٹ فکس کریں‘ ٹائم لائن طے کریں اور بس وہ کام ہوجائے گا اور ہم اگر یہ نہیں کرتے تو ہم خواہ کتنے ہی ذہین‘ مضبوط‘ تگڑے‘ ایمان دار اور قدرت کے پسندیدہ کیوں نہ ہوجائیں ہم اس زمین پر کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور یہ انسان کی دس ہزار سال کی محفوظ شدہ تاریخ کا نچوڑ ہے۔
تاریخ کا دعویٰ ہے غیر ترقی یافتہ قومیں جانوروں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتی رہتی ہیں‘ یہ کتوں اور بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ قومیں خوش حالی‘ امن‘ ماحول‘ انصاف‘ کرائم فری سوسائٹی‘ جمہوریت اور ذہنی اور جسمانی سکون کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں‘ ان کا اجتماعی ضمیر اور سوچ کام کرتی ہے لہٰذا یہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہیں۔
ہم آج کیوں مار کھا رہے ہیں؟ اس کی وجہ ہمارے اندر کا جانور ہے‘ ہم اپنے اجتماعی مسئلوں کے حل کے لیے بھی مل کر کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بھی لڑ رہی ہیں اور ان کے اندر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جنگ جاری ہے‘ یہ اداروں سے بھی لڑ رہی ہیں۔
ادارے بھی ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہیں اور یہ اندر بھی ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں اور یہ لڑائی پورے ملک میں جاری ہے‘ ہم نے مسجدیں‘ غسل خانے اور استنجا خانے تک تقسیم کر رکھے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ایک قرآن اور ایک نبی بھجوایا تھا لیکن ہم نے ان پر بھی اپنی اپنی مرضی کے غلاف چڑھا دیے ہیں‘ سنی خدا اور نبی کی اپنی تشریح کر رہے ہیں اور شیعہ کا تصورِ خدا‘ قرآن اور نبی دوسروں سے مختلف ہے۔
ہم پاکستان‘ قائداعظم اور علامہ اقبال بھی اپنا اپنا اٹھا کر پھر رہے ہیں‘ آپ کسی خاندان کے اندر جھانک کر دیکھ لیں‘ آپ کو اس میں بھی تلواریں‘ کلہاڑیاں اور چھریاں چلتی نظر آئیں گی‘ آپ کو مولوی مولوی‘ سیاست دان سیاست دان‘ بیوروکریٹ اور بزنس مین بزنس مین کا دشمن ملے گا‘ ہمارے جج اور استاد تک ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم شرف انسانیت سے نیچے گر کر کتوں (معاف کیجیے گا) جیسی زندگی گزار رہے ہیں چنانچہ ہم دوڑنے‘ بھاگنے اور ہانپنے کے باوجود منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں‘ آپ اس ملک کی بدقسمتی دیکھیے‘ ہم ہر ماہ ساڑھے چار لاکھ بیرل پٹرول درآمد کرتے ہیں‘ یہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی درآمد ہے‘ ہمیں ہر سال پٹرول کے لیے 12 بلین ڈالرز درکار ہوتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے ملک میں ہماری ضرورت سے زائد پٹرول اور گیس چھپا رکھی ہے۔
ہم اگر صرف پانچ سال محنت کرلیں تو ہم کم از کم گیس کے معاملے میں خودکفیل ہوسکتے ہیں‘ ماڑی گیس نے بنوں میں گیس کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت کرلیا‘ کنواں کھد چکا ہے بس پائپ لائن بچھنے کی دیر ہے اور ہماری گیس کی ضرورت پوری ہوجائے گی لیکن محکمے دو سال سے ’’تم کرو‘، تم کرو‘‘ کی تکرار میں مصروف ہیں‘ ملک میں گیس نہیں اور ہم گیس کے کنوئیں پر کیپ چڑھا کر بیٹھے ہیں۔
معدنیات کے ذخائر پر بھی دہشت گردی اور جہالت کا غلبہ ہے‘ بلوچستان میں بی ایل اے جیسی تنظیمیں کھدائی نہیں کرنے دے رہیں‘ کے پی میں ٹی ٹی پی سائٹس پر خودکش حملے کر رہی ہے‘ پنجاب میں ’’بیوروکریسی‘‘ سانپ بن کر بیٹھ گئی ہے اور سندھ میں ’’ہماری گیس‘، ہمارا حق‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں اور اگر ان تمام مشکلوں کے باوجود بھی کام ہوجائے تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اسٹے آرڈر سے کام رکوا دیتی ہیں‘ ہم نے 1992 میں موٹرویز بنانا شروع کی تھیں۔
آج 31 برس بعد بھی ہم پورے ملک کو سڑکوں سے نہیں جوڑ سکے جب کہ بھارت نے یہ کام ہم سے دس سال بعد شروع کیا تھا اور آج پورا ملک ہائی ویز سے جڑا ہوا ہے‘ بھارت نے 1997 میں ہم سے بجلی خریدی تھی‘ آج بھارت چار لاکھ دس ہزار میگاواٹ بجلی بنا رہا ہے جس کا 41 فیصد (ایک لاکھ 68 ہزار میگاواٹ) قدرتی وسائل پانی‘ سورج اور ہوا سے بن رہا ہے‘ یہ ریلوے‘ بسوں‘ ٹرکوں اور گاڑیوں کو بجلی پر شفٹ کر رہا ہے جب کہ ہم آج بھی 25 ہزار میگاواٹ کو مینج نہیں کر پا رہے۔
بھارت میں 166 لوگ کھرب پتی ہیں جب کہ ہماری پوری انڈسٹری سال سے بند پڑی ہے‘ ملک میں صرف ایک پروڈکشن انڈسٹری چل رہی ہے اور وہ ہے آبادی‘ ہم ہر سال 48 لاکھ نئے بچے پیدا کر دیتے ہیں‘ بھارت 2047 میں سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے جب کہ ہم نظریہ پاکستان کی تدفین کے لیے جگہ تلاش کر رہے ہیں اور بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر ہڑپ کر لیا جب کہ ہم 63 اے اور نوے دنوں میں الیکشن کا فیصلہ نہیں کر پا رہے‘ کیا قوم اس طرح چل سکتی ہے۔
کیا ملک اس طرح کتا کتا کر کے آگے بڑھ سکتا ہے؟ ہمیں بہرحال خدا خوفی کرنا ہوگی‘ ہمیں کسی پوائنٹ پر خود کو انسان ثابت کرنا ہوگا‘ ہم اگر آج بھی نہیں کرتے تو پھر دنیا مان لے گی ہمارے اندر ملک چلانے کی صلاحیت بھی نہیں اور اس خطے کی سب سے بڑی بیماری بھی ہم ہیں لہٰذا ایک بار ہی سہی لیکن خدارا جانوروں سے بالاتر ہوکر چند سال گزار لیں ورنہ ہمارے ساتھ وہ سلوک ہوگا جس کے ہم حق دار ہیں۔