جانوروں کا سماج ۔ ابویحییٰ
سید فصیح ایک نوجوان بچہ تھا جو میرے پچھلے محلے میں رہتا تھا۔ کل اسے ایک ڈمپر نے ٹکر ماری اور آج اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ اس محلے کا تیسرا بچہ ہے جو ٹریفک حادثے میں مارا گیا ہے۔ میں اس سے پہلے بھی ٹریفک حادثات پر متعدد آرٹیکلز لکھ چکا ہوں۔ یہ بتا چکا ہوں کہ پاکستان میں غیرطبعی موت کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں جس میں لاکھ کے قریب پاکستانی ہر برس سڑکوں پر مارے جاتے ہیں۔ یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اس طرح کے حادثات میں جب تک مرنے والے تعداد میں ایک دو سے زیادہ نہ ہوں کوئی خبر بھی نہیں بنتی۔ سماج کا کوئی ذمہ دار شخص یا طبقہ اس صورتحال کا نوٹس لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ اس معاملے میں ہماری بے حسی کی وجہ کیا ہے۔ وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ہاں عشروں سے تربیت کی بنیادیں بالکل الٹی ہوچکی ہیں۔ اس تربیت میں اہم ترین چیزوں کو چھوڑ کر غیراہم چیزوں کے معاملے میں ہمیں حساس بنایا گیا ہے۔ مذہب اور انسانی فطرت دونوں پہلوؤں سے انسانی جان کی حرمت سب سے بڑی چیز ہے۔ مگر ہمارے ہاں انسانی جان کی حرمت کو کبھی اہم سمجھا گیا نہ اس کی حفاظت کے معاملے میں ہمیں حساس بنایا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد ایک کرکے گھروں کے چراغ بجھ رہے ہیں۔ ماؤں پر قیامت بیت رہی ہے، باپ کی کمر ٹوٹ رہی ہے، بھائی بہن تڑپتے ہیں؛ مگر سماج ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بے حسی بتا رہی ہے کہ ہم انسانوں کا سماج نہیں رہے۔ ہم جانوروں کا سماج بن گئے ہیں۔ جب کوئی جانور مرتا ہے تو جنگل کے باقی جانوروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تاہم یہ قانون فطرت ہے کہ ایسے دو پایہ جانوروں کو یہ زمین زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرتی۔ جو قوم اپنے افراد کی بقا کے لیے حساس نہیں، آخرکار اس قوم کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔