جنت میں پیچھے رہنے والے ۔ ابویحییٰ
آپ کا جاننے والا کوئی شخص اگر کوئی تقریب منعقد کرے اور اس میں آپ کے تمام احباب اور رشتہ داروں کو بلائے، مگر آپ کو نہ بلائے تو یقینا آپ اس میں اپنی توہین محسوس کریں گے۔ خاص کر جب کہ یہ دعوت نامہ آپ کے سامنے ہی دوسروں کو دیا جارہا ہو۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے لیے عزت نفس بہت بڑی چیز ہے۔ کھانا پینا اور کسی تقریب میں جانے سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اسے کمتر سمجھا گیا۔ اس لیے یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی شخص اس طرح کی چیزوں سے اوپر اٹھ سکے۔ اس طرح کی چیزوں سے بلند ہونے کا حوصلہ صرف انھی انسانوں میں پیدا ہوتا ہے جن کا نصب العین جنت میں پروردگار عالم کا قرب تلاش کرنا ہوتا ہے۔ جو کسی صورت جنت میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔
ان کو ہمہ وقت یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ کل قیامت کے دن وہ ٹھکرا دیے گئے تو ان کا کیا ہوگا۔ جنت میں ان کے سارے جاننے والے چلے گئے اور وہ نہیں جاسکے تو کیا ہوگا۔ جنت میں انبیا علیھم السلام کی محفلوں میں ان کو نہیں بلایا گیا اور ان کے اردگرد کے لوگوں کو بلالیا گیا تو ان کو کیا محسوس ہوگا۔ فردوس کے مالک نے اپنی خصوصی ملاقات میں ان کے احباب اور ہم عصر واقف کاروں کو بلالیا اور ان کو نہ بلایا تو وہ یہ کیسے برداشت کرسکیں گے۔
یہ لوگ اس احساس سے تڑپ اٹھتے ہیں۔ ان کی راتوں کی نیند اس اندیشے سے اڑ جاتی ہے۔ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنا احتساب شروع کرتے ہیں۔ وہ تعصب، خواہش، غفلت کی ہر اس غلاظت کو اپنے اندر سے کھرچ کر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لباس ایمان اور لباس تقویٰ کو داغدار کرنے والی ہوتی ہے۔ وہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا عزم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی اضافی اور نفل نیکیاں جنت کے اعلیٰ مقامات کی ضامن ہیں۔