It is all about happiness – Abu Yahya
طارق روڈ کراچی کا ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہے۔ یہاں بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز واقع ہیں۔ شہر بھر سے لوگ کپڑے، زیورات اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے یہاں آتے ہیں۔ طارق روڈ کا ایک سرا شہید ملت روڈ اور دوسرا، وسطِ شہر کی سمت جاتے ہوئے، اللہ والی چورنگی پر واقع ہے =۔ اللہ والی چورنگی پر جس جگہ طارق روڈ ختم ہوتا ہے =، وہیں کونے پر سوسائٹی کا قبرستان ہے۔ پچھلے دنوں طارق روڈ کی طرف جانے کے لیے میں اس چورنگی پر پہنچا تو سگنل سرخ ہوچکا تھا۔ میں رک کر اشارہ کھلنے کا انتظار کر رہا تھا کہ طارق روڈ کے آغاز پر ایک بلند و بالا سائن بورڈ پر نظر پڑی۔ یہ سائن بورڈ ایک بینک کا تھا جس نے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تشہیر کے لیے سائن بورڈ پر ایک بہت ہی دلچسپ اور بامعنی جملہ لکھ رکھا تھا۔
.It is all about happiness
یہ جملہ کوئی سادہ جملہ نہیں ہے۔ یہ دورِ جدید کے انسان کی مکمل کہانی ہے۔ خوشی و راحت کا حصول ہر دور میں انسان کا مقصد اور اس کی خواہش رہی ہے۔ مگر آج کے انسان کی تمام تر خوشیاں مادی چیزوں کے حصول پر منحصر ہوچکی ہیں۔ دنیا کی نعمتیں حاصل کرنا، اس کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ وہ ان مادی خوشیوں کا ایسا اسیر ہوچکا ہے کہ جیب میں اگر پیسے نہ بھی ہوں تو وہ قرض لے کر ان مادی چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پہلے زمانے میں قرض لینا آسان نہ تھا۔ چنانچہ انسان پیسہ پیسہ جوڑ کر فرج، ٹی وی اور دیگر اشیاء خریدا کرتے تھے۔ مگر آج کا بینک، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سے، قرضہ کی یہ سہولت باآسانی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ جیب میں اگر کریڈٹ کارڈ ہو تو ہر فرمائش اور ہر خواہش کی فوری تسکین کی جاسکتی ہے۔ دلی تمنا کے فوری پورا ہونے کی یہی خوشی، اس جملے میں مراد تھی۔
مگر بینک کا ادارہ کوئی قرضہ فی سبیل اللہ نہیں دیتا۔ وہ اس قرضہ پر سود وصول کرتا ہے۔ یہی سود بینک کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ پھر یہ قرضہ ہر کس و ناکس کو ملتا بھی نہیں ہے۔ بینک پہلے تحقیق کر کے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جسے قرضہ دیا جا رہا ہے وہ قرضہ ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کے لیے اکثر اوقات کوئی نہ کوئی ضمانت رکھوائی جاتی ہے۔ اگر آپ قرض لے کر رقم واپس نہیں کریں گے تو قانونی کار روائی ہوگی اور بالجبر قرضہ وصول کرلیا جائے گا۔ گارنٹی کی ہر چیز ضبط ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ عدم ادائیگی کی صورت میں جیل جانا پڑے گا۔
سگنل پر کھڑے کھڑے چند لمحوں میں میرے ذہن میں یہ سارے خیالات گزر گئے۔ ابھی سگنل بند ہی تھا کہ میری نظر اس سائن بورڈ کے بالکل نیچے پڑی جہاں سوسائٹی کے قبرستان کا منظر میری نگاہوں کے سامنے آگیا۔ مجھے خیال آیا کہ یہ ایک دوسرا اشتہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جگہ جگہ لگا رکھا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس اشتہار میں بھی، زبان حال سے، ٹھیک وہی سلوگن لکھا ہوا ہے جو بینک کے اشتہار میں تھا۔
.It is all about happiness
قبرستان کا منظر انسان کو یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ابدی نہیں بلکہ عارضی طور پر موجود ہے۔ وہ یہاں اپنے رب سے مہلتِ عمر قرض لے کر آیا ہے۔ روزِ ازل انسان نے زندگی کا یہ کریڈٹ کارڈ اس لیے لیا تھا کہ وہ جنت کی ابدی خوشیوں اور راحتوں کو حاصل کرسکے۔ اس قرضے کے لیے انسان نے اپنا وجود خدا کے پاس گارنٹی رکھا ہوا ہے۔
کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَھِے ْنَۃٌ: ہرنفس اپنی کمائی کے عوض رہن ہے۔ (المدثر74:38)
انسان اس دنیا میں اگر نیک عمل کی کمائی کرلیتا ہے تو نہ صرف جنت کی خوشیوں کو حاصل کرے گا بلکہ جہنم کی سزا سے بھی اپنی ہستی کو بچا لے گا۔ اس کے برعکس انسان اس حیات مستعار کو دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے ضائع کر بیٹھا تو نعمت بھری جنت تو ایک طرف رہی، اس کا وجود جہنم کے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔
انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کی اکثریت مہلتِ عمر کے اس قرض کو آخرت کی ابدی خوشیاں سمیٹنے کے بجائے دنیا کی عارضی خوشیوں کے پیچھے لگا دیتی ہے۔ اس رویے سے صرف وہ شخص بچ سکتا ہے جو اپنی خواہشات پر صبر کرنا سیکھے۔ انسان کے اندر خواہش کا پیدا ہونا غلط نہیں، اس کابے لگام ہوجانا غلط ہے۔ کیونکہ خواہشات کی اندھی پیروی انسان کے پاس یہ موقع نہیں چھوڑتی کہ وہ آخرت کے لیے سرمایہ کاری کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ جنت کو صبر کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ آج صبر سب سے بڑھ کر خواہشات کے بارے میں مطلوب ہے۔
سو اَب جب کبھی آپ کسی قبرستان کے پاس سے گزریں تو وہاں ایک سائن بورڈ ضرور دیکھیے گا جس پر جلی حروف میں جنت کی ابدی زندگی کے متعلق یہ لکھا ہوگا۔
It is all about happiness
It is all about patience