اصلاحی تحریکیں اور تنقیدی ذہن ۔ ابو یحییٰ
مسلمانوں کے دور زوال میں بہت سی اصلاحی تحریکیں اور مفکرین پیدا ہوئے۔ یہ تحریکیں اور مفکرین ایسے غلط رویوں کی اصلاح کے لیے اٹھے تھے جن کے معاملے میں لوگ ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے ان کے ہاں تنقید کا عنصر بڑی شدت سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اس تنقید سے جہاں بہت سی چیزوں کی اصلاح ہوئی وہیں ایک مسئلہ خود ان اصلاحی تحریکوں میں یہ پیدا ہوا کہ اختلافات کے باوجود ساتھ چلنے، برادشت اور تحمل کا مزاج بڑی حد تک ختم ہوگیا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ ایک دفعہ جب تنقیدی ذہن کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ اصولی ہی نہیں فروعی اور ثانوی باتوں میں بھی نقائص، عیوب، کمزوریاں اور خامیاں دیکھتا چلا جاتا ہے۔ یہ ذہن عام اہل علم کے ساتھ کام کرتا ہے اور توقع یہ رکھتا ہے کہ پیغمبروں کی بے عیب سیرت کا نمونہ نظر آئے۔ یہ ذہن تنقید کا اتنا عادی ہوتا ہے کہ کسی اصولی بات کے بجائے اپنے مزاج کے خلاف بھی کسی بات کو لے کراسے اختلاف اور پھر علیحدگی کا مسئلہ بنا دیتا ہے۔
یہ تنقیدی ذہن ایک غیر حقیقی اور رومانوی دنیا میں جیتا ہے۔ وہ گزرے ہوئے اکابرین اور ان بزرگوں کی عظمت کا تو کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے جن سے روزمرہ معاملہ پیش نہ آئے، مگر شب و روز کے ساتھیوں کا عقابی نظر سے جائزہ لیتا رہتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس عقابی جائزے سے وہ کبھی اپنی شخصیت کا احتساب نہیں کرتا یا کرتا ہے تو اپنے خود ساختہ اصولوں کی روشنی میں کرتا ہے۔ یہی و ہ لوگ ہیں جو مزاج اور افتاد طبع کے اختلاف کو بھی اصولی اختلاف بنا کر نہ صرف الگ ہوجاتے ہیں بلکہ مستقبل کے ناقدین کی فہرست میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اکابر پرستی ایک جرم ہے اسی طرح اپنی ذات، ذوق اور مزاج کو بنیاد بنا کر تنقید کرنا ایک جرم ہے۔ ایسے معمولی اختلاف کے باجود ساتھ چلنا اعلیٰ اخلاقی رویہ ہے۔ نہ کہ شکوہ شکایت کے ذاتی دفتر کو اصولی اختلاف کا رنگ دینا۔