انسان کی سب سے بڑی الجھن کا حل ۔ محمد تہامی بشر علوی
دنیا میں ہر انسان کو یہ الجھن درپیش ہوتی ہے کہ اسے جتنا کچھ ملا ہے، وہ اس کے لیے ناکافی ہے۔ وہ ملی ہوئی چیزوں سے پوری طرح خوش نہیں ہوپاتا۔ اسے جو جسمانی شکل و صورت ملی ہے یا جو اورنعمت بھی ملتی ہے، وہ اس سے مطمئن نہیں۔ میں نیپال کے سفر پہ تھا، دوبئی سے ایک آسٹریلین خاتون ہماری ہم سفر بنی۔ دوران سفر ان سے چند امور میں تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ میں نے اس سے اس کی زندگی کا مقصد دریافت کیا۔ اس نے بتایا کہ میں اس لیے جینا چاہتی ہوں تاکہ لوگوں کو مجھ سے خوشی ملے۔ وہ خاتون لیڈی ڈاکٹر تھی۔ اس نے بتایا کہ میں مریضوں کی ہیلپ کر کے، ان کی خدمت کر کے، ان کا دکھ دور کر کے بہت خوشی محسوس کرتی ہوں۔ میں ان کو خوشی پہنچاتی ہوں اور یوں ان کی خوشی واپس مجھ تک لوٹ آتی ہے۔ انھیں خوشی پہنچا کر مجھے ایک سکون ملتا ہے۔
بس یہی سکون اور یہی خوشی میری زندگی کا مقصد ہے۔ میں نے اس سے کہا: بتائیے، کیا آپ واقعی خوش ہیں؟ اس نے کہا: میرا خیال ہے کہ میں خوش ہی ہوں۔ میں نے کہا: میرا خیال ہے کہ ایسا تو ممکن ہی نہیں۔ اس نے کہا: وہ کیسے؟ میں نے اس سے پوچھا: بتائیے، آپ کو جو وجود اور جو صورت ملی ہے، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ اپنی ناک کو اسی طرح قبول کریں گی یا اگر آپ کو اپنی مرضی کی ناک رکھنے کا آپشن مل جائے تو آپ اس ناک کو بدلنا چاہیں گی یا نہیں؟ اس نے کہا کہ آپشن ملے تو بدل دوں گی۔ میں نے کہا: تو کیا آپ اپنی اس موجودہ ناک سے خوش نہیں ہیں؟ اس نے ذرا توقف کے بعد کہا کہ نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ معاملہ صرف ناک تک ہی محدود نہیں ہے، حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں ایک انسان کو ملنے والی چیزوں سے کوئی انسان بھی خوش نہیں۔
ہر انسان کو موقع دیا جائے تو وہ چاہے گا کہ اس کا پورا وجود اور صورت بدل کر اس کی مرضی کے مطابق کر دی جائے۔ موجود کو ناکافی سمجھنا اور اپنے لیے اپنی مرضی کا پانے کی تمنا کرنا، یہ ہر انسان کا فطری مسئلہ ہے۔ اپنی مرضی کا یہاں کچھ بھی نہ پاسکنا، انسان کی سب سے بڑی الجھن ہے۔ وہ اس الجھن کو اسی دنیا میں آج بھی حل کرنے کی ہر ممکن سعی کر رہا ہے۔ خدا بتاتا ہے کہ اس موجود دنیا میں ایسی کسی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ کوئی کہے بھی کہ وہ موجود سے مطمئن ہے تو تھوڑی تحقیق سے معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے۔ آپ انسانی معاملات پر غور کریں، آپ اپنے رشتہ داروں، اپنے گھر والوں میں ہی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آپ کے مزاج اور مرضی کے سارے افراد نہیں ہوں گے۔ یہ بھی آپ کے لیے پریشانی کی وجہ بن جاتی ہے۔ آپ کے گھر کا جو ماحول ہے، وہ بالکل آپ کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔
بعض اوقات اولاد پریشان ہوتی ہے کہ ہمارے والدین ہماری مرضی کے نہیں ہیں۔ وہ ہمارے ہر معاملے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات والدین پریشان ہوتے ہیں کہ ہماری اولاد ہماری مرضی کے خلاف کچھ اور کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس قسم کی الجھنیں ہر انسان کو درپیش ہیں اور انسان شروع ہی سے ان کا حل تلاش کرنے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بس کسی طرح ہمیں ان مسائل کا حل مل جائے اور ہم ایسی کوئی دنیا آباد کر لیں جس میں سب کچھ ہماری مرضی کا ہو۔ جہاں ہماری صورت، ہماری صحت، ہماری صلاحیتیں، ہمارا گرد و پیش اور ہمارا ماحول، یہ سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق ہو جائے۔ لیکن ایسا ہونے کی کوئی صورت ہی نظر نہیں آرہی۔ اور سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ انسان کو موت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا ہے۔ انسان اور یہ کائنات آپس میں میچ ہی نہیں کرتے۔ اصل میں انسان کی اس الجھن کا حل انبیا علیھم السلام کے علاوہ کسی نے پیش ہی نہیں کیا۔ انبیا علیھم السلام انسانوں کو ایک بہت اہم حقیقت سمجھاتے رہے۔
وہی حقیقت درحقیقت ان تمام الجھنوں سے، پریشانیوں سے نکلنے کے لیے ایک فارمولا ہے۔ اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جو انسان اس فارمولے کو سمجھ لے گا، وہ پریشانیوں سے نجات حاصل کرلے گا۔ جو یہ نہیں سمجھے گا، وہ پھنسا رہے گا، الجھا رہے گا اور ساری زندگی اس فارمولے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بے چین، مایوس اور اداس رہے گا۔ وہ فارمولا یہ ہے کہ انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک حصہ ہے مرنے سے پہلے کا اور ایک حصہ ہے مرنے کے بعد کا۔ مرنے سے پہلے جو حصہ ہے، یہ need basis life ہے، یعنی اس حصے میں وقتی نوعیت کی ضروری چیزیں ہی آپ کو ملیں گی۔ اس میں آپ کی خواہشات پوری نہیں ہوں گی۔ کسی انسان کی اس دنیا میں ساری خواہشات کبھی پوری ہوئی ہی نہیں، بلکہ یہاں تو کسی کی کوئی ایک خواہش بھی کامل طور پر پوری نہیں ہوتی۔ یہ دنیا اپنی بناوٹ میں ادھوری اور نامکمل دنیا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی دنیا میں ہمیں کیوں لایا گیا ہے؟ جب ہماری خواہشات پوری نہیں ہو رہیں، تو ہم میں یہ خواہشات رکھی ہی کیوں گئی ہیں؟ انبیا کے دیے ہوئے تصور حیات میں ان سوالوں کا جواب موجود ہے۔ اس تصور کی رو سے اس محدود دنیا نے ختم ہو جانا ہے اور انسان کی لامحدود خواہشات پوری کرنے کے لیے الگ کائنات تخلیق کی جائے گی جو انسان کی خواہشات کے مطابق ہوگی۔ یہاں ان خواہشات کا ہونا اس چیز کی دلیل ہے کہ جنت ہر انسان کا ایک فطری تقاضا ہے۔ ہر انسان کو اس فطری تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس عارضی دنیا میں لوگوں نے اپنے آپ کو اس wish based life کے لیے منتخب کروانا ہوگا۔ ان منتخب افراد کو صالح لوگوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی جنت کے معیار پر پورے اترنے والے لوگ۔ جنت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے اس عارضی دنیا میں ہمیں ایک امتحان سے گزرنا ہوگا۔
یہ امتحان پوری انسانی شخصیت کا امتحان ہے جس میں ہماری فکر، علم، عمل، خیال اور اخلاق کو آزمایا جائے گا۔ اس آزمائش میں ہم سے اچھائی چاہی گئی ہے۔ اس دنیا میں مرنے سے پہلے پہلے جو لوگ اس میرٹ پر آجائیں گے، وہ خواہ کسی بھی رنگ، نسل، خاندان سے ہوں، خواہ وہ امیر ہوں، غریب ہوں، مسکین ہوں، یا فقیر ہوں، جو بھی ہوں وہ wish based life کے لیے qualify کر لیں گے۔ وہاں پر انسان کو اپنی مرضی کی مکمل بادشاہی مل جائے گی۔ وہاں نہ کبھی موت آئے گی، نہ بیماری آئے گی۔ وہاں نہ کوئی خوف اور نہ کوئی الجھن، پریشانی۔ وہاں بس مکمل خوشی ہے اور مسلسل خوشی ہے۔
یہ ایک اہم حقیقت ہے، جو ہر وقت پیش نظر رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ حقیقت نظروں سے ہٹتے ہی انسان جہالت اور بے چینی کی بے معنی زندگی جینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔ زندگی کا دوسرا حصہ اس کی نظروں سے مکمل ہٹ گیا ہے۔ مسلمانوں میں بھی دیکھیے تو آخرت کا تصور بالکل رسمی ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں محسوس نہیں کیا جاسکتا کہ وہ آخرت کو سامنے رکھ کر جی رہے ہیں۔ ہمیں یہ محسوس کرنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ہم یہ سب اپنی زندگی میں بھی محسوس کر سکتے ہیں۔
آخرت کے حقیقی تصور سے بے خبری کے نتیجے میں ایک قسم کا رسمی سا تصور ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ اور وہاں کی کامیابی کے لیے بھی حقیقی طرز زندگی اختیار کرنے کے بجاے لوگ من چاہے حربے اختیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ہمارے ہاں کے مسلمانوں کا رائج تصور آخرت قرآن مجید کے دیے ہوئے حقیقی تصور کے مکمل طور پر برعکس ہے۔ اس تفصیل کا یہاں موقع نہیں، بہر حال یہ اس دور کا بڑا المیہ ہے کہ انسان، زندگی کے دوسرے حصے کے بارے میں کوئی شخص سنجیدہ نہیں۔ عارضی زندگی میں مکمل ہوشیار لوگ بھی ابدی زندگی کے معاملے میں مکمل بدھو بنے ہوئے ہیں۔ وہ دنیا میں احمقانہ طرز عمل اختیار کرنے پر لوگوں پر ہنستے ہیں اور خود اخروی معاملے میں ان سے بھی پرلے درجے کے احمق بنے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کا مذہبی طبقہ بھی آخرت کے درست تصور پر قائم نہیں ہے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ علما امت میں دل کے مانند ہوتے ہیں، ان میں بگاڑ آجائے تو امت کے پورے وجود میں بگاڑ آجاتا ہے۔ اس طبقے میں آخرت کا تصور بگڑا تو انھوں نے لوگوں کا تصور بگاڑ دیا۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ دینی امور میں محلے کے مولوی صاحب پر مکمل قناعت فرما رہے ہوتے ہیں، غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور دنیا جہان کی من گھڑت چیزوں پر ایمان لانے کو بے تاب بیٹھے رہتے ہیں۔ آپ کو یقین نہ آئے تو خود ہی آزمائش کے لیے کوئی من گھڑت افسانہ سنا ڈالیے، پھر دیکھیے اس پر یقین کرنے کو بے شمار لوگ بہ آسانی میسر ہو جائیں گے۔ یوں اوٹ پٹانگ چیزیں ماننے کو بے تاب قوم ماننے سے پہلے سوچنے کا وقفہ ضروری نہیں سمجھتی۔
بات ہو رہی تھی زندگی کے دو حصوں کے تصور پر۔ اس تصور کو ٹھیک طرح سمجھنا، زندگی کی نعمت سے ٹھیک طرح فائدہ اٹھانے کے لیے بہت ضروری ہے، ورنہ ایک خوب صورت اور مطمئن زندگی جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ زندگی کے اس تصور کو سمجھنے کے بعدہی کوئی زندگی کا عارضی حصہ آزمائش سمجھ کر گزار سکتا ہے۔ وہ یہاں کی محرومی اور عطا کو آزمائش و امتحان کے زاویے سے ہی دیکھے گا۔ وہ ملنے پر مغرور اور چھننے پر مایوس نہیں ہوگا۔
یہاں کسی کی آنکھیں اس کی مرضی کی نہیں، کسی کی شکل اس کی پسند کی نہیں۔ اگر وہ مومن ہے تو وہ مایوس نہیں ہوگا۔ اسے معلوم ہے کہ یہ یہاں اس کی مرضی کا اسے نہیں دیا گیا۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اسے یہاں جو کچھ ملا ہے، اس کی بنیاد پر سب کچھ اپنی مرضی کا پانے کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے۔ وہ جو جیسا ملا ہے، اس پر شکر کرے گا اور اپنی مرضی کا پانے کے لیے صبر کرے گا۔ اس صبر اور شکر کے ساتھ وہ اپنی زندگی کو پاکیزہ بنا کر جنت کا انعام پا لے گا۔ آخرت کے یقینی اور حقیقی تصور کے دل میں راسخ ہو جانے کے بعد پوری زندگی کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ سوچ، فکر، عمل اور اخلاق، سب کچھ مناسب جگہ پر آجاتا ہے۔ یہ حقیقت فراموش کرکے لوگ دولت اور اسباب کی نہ ختم ہونے والی بھوک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح انھیں اپنی مرضی کی زندگی جینے کا موقع مل جائے گا۔ کروڑوں کمانے والوں سے معلوم کیجیے تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی کوئی ایک مرضی بھی ان کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوئی۔ آپ کروڑوں روپے کیا ساری دنیا کے اسباب اور دولت جمع کر لیں، تب بھی آپ کی خواہشات کے مقابلہ میں ایک تنکے جتنی خواہش بھی پوری نہیں ہوئی ہوگی۔
یہ اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے کہ اس آزمائش کی زندگی میں ایسا ہو جانا ناممکنات میں سے ہے۔ یہاں جو ممکن ہے، وہ بس یہ ہے کہ یہاں ہم اپنے آپ کو اس قابل بنا لیں کہ زندگی کے دوسرے حصے میں خواہشات والی زندگی جینے کا موقع ہمیں مل جائے۔ ویسی زندگی کے حصول کی اس امتحان کی عارضی زندگی میں کوشش ایک کھلی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا احمق اس احمق سے بھی بڑا احمق ہے جو کیکر کے درخت پر آم کا پھل لگنے کا انتظار کر رہا ہو۔