انسان اور جانور کا فرق ۔ ابویحییٰ
میرے ایک قریبی دوست ہیں۔ ان کے سامنے اگر کوئی یہ کہہ بیٹھے کہ اسے مطالعے کی عادت نہیں یا مطالعے کے لیے وقت نہیں ملتا تو وہ پلٹ کر جواب دیتے ہیں، اطمینان رکھیے! آپ اس معاملے میں تنہا نہیں ہیں۔ دیگر جانور بھی کتابیں نہیں پڑھتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جانور اور انسان دونوں کو بہت سے کام جبلت سکھاتی ہے۔ بہت سے افعال ایسے ہیں جو حواس سے حاصل شدہ علم کی بنا پر ہوتے ہیں۔ بہت سی چیزیں دونوں ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔ لیکن یہ صرف انسان کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے علم کے خزانے کو الفاظ کی صورت دیتا اور اسے کتاب کی تجوری میں محفوظ کر دیتا ہے تاکہ دوسرے لوگ علم کے اس خزانے سے استفادہ کرسکیں۔ قلم و کتاب کی یہی وہ سلطنت ہے جس کی تسخیر، انسانوں پر، تسخیرِ کائنات کے تمام دروازے کھول دیتی ہے۔
کتاب پڑھنا صرف انسان اور جانور ہی کا فرق نہیں بلکہ ایک قوم اور دوسری قوم کا بھی فرق بن جاتا ہے۔ جس قوم میں قلم و کتاب کی حکومت ہو وہ قوم دوسری اقوام پر اسی طرح حکومت کرتی ہے جس طرح انسان جانوروں پر حکومت کرتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں میں لکھنے پڑھنے کا ایک غیرمعمولی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ یہ ذوق مذہب کے پس منظر میں پیدا ہوا تھا۔ مگر ایک دفعہ پیدا ہوگیا تو صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ علم کی تمام شاخوں تک پھیل گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزار برس تک مسلمان دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ مسلمانوں کا زوال بھی جس واقعہ سے شروع ہوا وہ یہی تھا کہ بغداد اور اسپین میں مسلمانوں کی کتابوں کے ذخیرے یا تو جلا دیے گئے یا پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہی کتابیں یورپ پہنچیں تو وہ آنے والے دنوں میں دنیا کی حکمران بن گئے۔
آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔ کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔اور جس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہوجائے وہاں علم کی پیداوار بھی ختم ہوجاتی ہے۔ جس قوم میں علم نہ ہو اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔