ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ۔ محمد عامر خاکوانی
چند دن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی، وہ رنجیدہ دکھائی دئیے، معلوم ہوا کہ ان کے ایک محلے دار کا نوجوان لڑکا انتقال کر گیا ہے، وہ کینسر کا مریض تھا۔ بتانے لگے کہ چند دن پہلے ان کے سسرالی عزیزوں میں بھی تیس سالہ نوجوان کی ڈیتھ ہوئی ہے، وجہ کینسر ہی تھی۔ محفل میں موجود ایک اور دوست بھی اسی طرح کے ایک دو اور واقعے سنانے لگے۔ جب ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کینسر کا مرض خوفناک حد تک تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ روٹین چیک اپ کا رواج نہیں ہے، اس لئے بیشتر کیسز میں مریض کو اس وقت پتہ چلتا ہے، جب وہ مرض کی آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہو۔آپ بھی اگر اپنے اردگرد دیکھیں اور اعداد و شمار اکٹھے کریں تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ مسئلہ کس قدر خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ اس طرف سوچے کون؟ میڈیا تواپنی ترجیحات واضح کر چکا۔ کرنٹ افیئرز اس کی پہلی پسند ہے۔ ہر واقعہ جو فوری اور ہنگامی نوعیت کا ہو، خواہ اس کی بڑے تناظر میں اہمیت ہو یا نہ، میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا پر وہ سب سے زیادہ وقت لے گا۔ طاہر القادری صاحب جہاز سے نہیں اترے تو کئی گھنٹوں تک کیمرے ان کے جہاز ہی پر مرکوز رہیں گے۔ چودھری نثار وزیراعظم سے روٹھے بیٹھے ہیں توچودھری صاحب کی ناراضی اور پھر ان کو منائے جانے کی کوششیں ہی تمام ٹاک شوز کا موضوع ہوں گی۔ ارسلان افتخار کو بلوچستان میں انوسٹمنٹ بورڈ کا وائس چیئر مین بنایا گیا تو یہ خبر بنی، کالم لکھے گئے، ٹاک شوز ہوئے، اسمبلی میں تقریریں ہوئیں۔ ارسلان افتخار کو ہٹا دیا گیا تو یہ بھی اسی طرح خبروں کا موضوع بنا۔ ارسلان افتخار نے عمران خان کے خلاف محاذ کھول دیا تو اینکرز کی باچھیں کھل گئیں، انہوں نے اس نئے ایشو کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔
میڈیا کو اس سے سروکار نہیں کہ بنوں میں لاکھوں متاثرین کے ساتھ کیا گزر رہی ہے؟ ہمیں پسند ہو یا نہ، اچھا لگے یا برا، میڈیا تو یہی کچھ کرے گا، یہ آج کی زمینی حقیقت ہے۔ سول سوسائٹی تو ویسے بھی ہمارے ہاں ایک اصطلاح سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی۔ رہی انٹیلی جنشیا تو ہمارے ہاں نام نہاد انٹیلی جنشیا ہی ہے۔ بقول شخصے ہماری انٹیلی جنشیا ریٹائرڈ بیورو کریٹس، اردو کے چند استادوں، جنہیں کالم لکھنے کا موقعہ مل گیا اور وہ اب خود کو دانشور کہلانا پسند کرتے ہیں یا پھر چند ایک تاریخ یا سماجی فلسفے کے متروک پروفیسروں پر مشتمل ہے۔ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ یہ پڑے پڑے سینئر ہوجانے والی انٹیلی جنشیا تو بے چاری چلنے کے قابل نہیں، اس کی دوڑ کہاں تک ہونی ہے؟ ایک زمانے میں جب ریڈیو پاکستان کا طوطی بولتا تھا اور ہر خاص وعام ریڈیو سنا کرتا تھا، سات بجے ایک مقبول پروگرام نشر ہونا تھا، اس سے چند منٹ پہلے سازندوں کی ایک پرفارمنس چلنے لگی۔ ایک صاحب نے ریڈیو فون کر کے کہا، یہ کیا بے کار پروگرام چل رہا ہے، ڈیوٹی افسر کوئی زندہ دل شخص تھا، اس نے برجستہ جواب دیا، ’’ حضرت پریشان نہ ہوں، سات بجنے تک کا وقت پورا ہو رہا ہے۔‘‘ ہمارے بیشتر دانشور اور لکھاری بھی وقت ہی پورا کر رہے ہیں۔
دو دن پہلے ایک دوست سے کینسر کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایک سینئر کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر کا حوالہ دیا، جو کچھ عرصہ پہلے ریسرچ ورک کرنے پاکستان آیا تھا۔ وہ بتانے لگے کہ بوڑھے ڈاکٹر سے ان کی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں، ان کا ایک آدھ لیکچر بھی کرایا۔ کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر کا لیکچر حیران کن انکشافات سے بھرپور تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا، ’’ پاکستانیوں کو اندازہ نہیں کہ کینسر یہاں پر کس قدر خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے، اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ پاکستانیوں کا لائف سٹائل بالکل بدل چکا ہے۔ یہ اپنے قدرتی حالات سے ہم آہنگ لائف سٹائل کے برعکس ایسا مصنوعی طرز زندگی اپنا چکے ہیں، جو انہیں اندر سے تباہ کر رہا ہے۔ دیر سے سونا، دیر سے جاگنا، غیر صحت مند غذا، ورزش سے گریز، تناؤ، ٹینشن، مزاج میں تلخی، کڑواہٹ، غصہ، بات بات پر لڑ ائیاں۔ ۔ ۔ یہ سب اسی ان نیچرل لائف سٹائل کی دین ہیں۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے لئے صحت مند تفریح کے مواقع بہت کم ہو چکے ہیں، کھیل، میلے، فیسٹول، فلم، تھیٹر ٹی وی ڈرامہ، مشاعرے۔ ۔ ۔ ہر حوالے سے چیزیں مکمل طور پر بدل چکی ہیں۔ تفریح کی نوعیت انفرادی ہو چکی، اجتماعی تفریح کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا ہے۔ ایک عرصے تک لوگ اکٹھے بیٹھ کر پی ٹی وی کا ڈرامہ دیکھا کرتے، پوری فیملی لطف اندوز ہوتی، ان کے درمیان موجود محبت کا رشتہ مضبوط رہتا۔ اب تو ایک ڈائننگ ٹیبل پر بھی اکٹھے نہیں ہوتے۔
تیسری بڑی وجہ مختلف نوعیت کی انفیکشن اور بیماریاں ہیں، جن میں سے بعض مسائل سنگین ہو کر کینسر کی طرف جا سکتے ہیں۔ مثلاً ہیپاٹائٹس بی خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے، اگر اس کو کنٹرول کر لیا جائے تو جگر کے کینسر سے بچا جا سکتا ہے، ہیپا ٹائٹس سی کی ویکسین نہیں، مگر بی کی ویکسین تو بہرحال موجود ہے، اسے تو کنٹرول ہونا چاہیے۔
’’چوتھی اور بہت اہم وجہ مختلف اشیا میں درآئی خطرناک ملاوٹ ہے۔ پاکستان میں موجود کسی بھی کھانے کی چیز پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں دودھ صحت مند غذا کا لازمی جز ہے، ادھر دودھ کھلا ہو تو بھی غیر محفوظ، پیکٹوں میں بند ہے تو بھی اس کے بارے میں طرح طرح کے افسانے مشہور۔ مرچوں سے لے کر سپرے سے متاثرہ سبزیوں اور پھلوں تک کس کس چیز سے بچا جا سکتا ہے؟ ریڈ میٹ یعنی گائے اور بکرے کے گوشت سے بچ کر وائیٹ میٹ یعنی مرغی، مچھلی پر آئیں تو پھر بھی مصیبت۔ برائلر مرغی کی فیڈ پر ریسرچ کی جائے تو خوفناک حقائق سامنے آئیں گے۔ پھر لوگوں کو آگہی بالکل نہیں۔ میڈیا پر صحت سے متعلق کچھ نہیں بتایا جاتا۔ لوگ فریج میں چیزیں محفوظ کرنے کے لئے رکھتے ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہاں تو سب سے زیادہ جراثیم ہیں۔ جس اسفنج سے برتن دھوئے جاتے ہیں، وہاں پر باتھ روم کے کموڈ سے زیادہ آلودگی اور جراثیم پائے جاتے ہیں، کبھی کسی نے اس اسفنج کو گرم پانی سے دھونے کی زحمت ہی نہیں کی۔ باتھ روم کے دروازے کے ہینڈل اور چٹخنی کو کبھی گرم پانی سے نہیں دھویا گیا۔ ہر گھرمیں فینائل سے فرش دھویا جاتا ہے، حالانکہ یہ انسانی جسم کے لئے ایک اجنبی اور نقصان دہ کیمیکل تصور کیا گیا ہے، امریکہ جیسے ملک میں لوگ میٹھے سوڈے میں سرکہ ملا کر فرش دھوتے ہیں جو بہترین اینٹی بیکٹیریا بھی ہے اور انسانی جسم کے لئے مضر بھی نہیں۔‘‘ ڈاکٹر سے پوچھا گیا کہ آپ نے جو کچھ کہا وہ سب درست ہے، مگر اس کے باوجود عام پاکستانی کینسر سے بچنا چاہے تو کیا کرے؟ بوڑھے سائنس دان نے ترنت جواب دیا، ’’ انفرادی طور پر تو کینسر سے بچنے کے تین چار طریقے ہیں، سموکنگ بالکل چھوڑ دیں، کینسر کی بیس بائیس فیصد اموات اسی سے ہوتی ہیں پان، گٹکا سے جان چھڑائیں، سرخ گوشت کے بجائے سبزیوں، پھلوں پر انحصار کریں، بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھائیں، ٹینڈے، کدو، توری، شلجم، پالک جیسی سادہ سبزیاں پسند کرنا شروع کر دیں، ٹماٹر، بند گوبھی، کھیرے اور دہی، شہد، زیتون خوراک کا لازمی جز بنائیں، گرین ٹی لیا کریں، سب سے بڑھ کر باقاعدگی سے ورزش اور گھر کے کام کاج کریں، موٹاپا پندرہ بیس فیصد تک کینسر کی بیماریوں کی وجہ ہے۔ اس کے باوجود یہ یاد رکھیں کہ بطور قوم بھی اپنی عادتیں درست کرنی ہوں گی۔ ہروقت کی ہنگامی صورتحال سے نکل کر کچھ دیر تک یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کینسر جیسی جسمانی اور اس جیسی بعض اخلاقی بیماریوں سے بچنے کے لئے اپنا محاسبہ بڑا ضروری ہے۔ یہ محاسبہ فرد بھی کرے اور قوم بھی۔‘‘