شان مسلمانی ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر مصری چینل النہار کی ایک وڈیو بہت مشہور ہوئی جس میں ایک جدید وضع قطع کی لڑکی ایک خاتون اسکالر کا انٹرویو کر رہی تھی۔ یہ خاتون ڈاکٹر نوحا سلفی پس منظر کی تھیں جو اب متشکک (Skeptic) ہوچکی تھیں۔ چنانچہ اپنے اس موجودہ پس منظر کی بنا پر انھوں نے مذہب سے متعلق بڑے منفی خیالات کا اظہار کیا۔ مثلاً دوران انٹرویو ان خاتون اسکالر نے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتیں، آسمانی وحی کوئی چیز نہیں اور حضرت جبریل کی ہستی بس ایک کہانی سے زیادہ نہیں۔ اسی نوعیت کے کچھ اور خیالات کا بھی انھوں نے اظہار کیا۔
خیر اس انٹرویو کی وجہ شہرت یہ نہیں بنی، اصل چیز جس نے اس انٹرویو کو مقبول کر دیا وہ یہ تھی کہ جدید وضع قطع کی اینکر نے خاتون اسکالر سے کچھ سخت سوالات کیے، اسلام سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کیا اور آخرکار اس خاتون کو پروگرام سے ذلیل کرتے ہوئے نکال دیا۔
آج کے مسلمانوں کے جذباتی انداز فکر کی بنا پر ان میں اس طرح کی چیزیں بہت مقبول ہوجاتی ہیں۔ یعنی ایک فیشن ایبل اینکر نے غیر اسلامی خیالات کی بنا پر کسی کو پروگرام سے نکال دیا۔ درحقیقت اس طرح کی چیزیں اسلام کا بدترین تعارف ہیں۔ یہ اسلام کا ایک ایسا تعارف پیش کرتی ہیں کہ گویا اس کے پاس اس طرح کی سطحی باتوں کا کوئی جواب نہیں سوائے اس کے کہ سوال کرنے والے پر گرج برس کر اس کا منہ بند کر دیا جائے، اسے قتل کر دیا جائے یا نکال دیا جائے۔
اس پروگرام سے کسی کو اگر نکالنا چاہیے وہ ٹی وی اینکر ہے۔ اس لیے کہ ایک برس قبل یہ خاتون اینکر ایک مسلم اسکالر کو بلا کر اسی طرح آن ائیر ذلیل کرچکی تھیں۔ وہ عالم اس شرط پر پروگرام میں آئے تھے کہ اینکر اسکارف لیں گی۔ مگر اینکر نے لائیو پروگرام میں اسکارف اتار دیا اور سارے ناظرین کو یہ بتا دیا کہ یہ بزرگ جو ہزار پونڈ لے کر اس پروگرام میں آئے ہیں، مجھے پروگرام سے قبل بغیر اسکارف کے دیکھتے رہے ہیں۔ پروگرام سے قبل عالم کے ساتھ بغیر اسکارف لیے اس اینکر کی عالم کے ساتھ گفتگو بھی دکھائی گئی۔
اینکر اپنے پروگراموں کو مقبول بنانے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ خاتون اینکر اگر سنجیدہ ہوتی تو خاتون اسکالر کو پروگرام میں بلانے سے قبل اس کا پس منظر معلوم کرتی۔ پھر کسی معقول صاحب علم سے اس طرح کے اعتراضات کا جواب سمجھ لیتی۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قرآن مجید میں علمی بنیادوں پر اس طرح ثابت ہے کہ کوئی معقول شخص کسی طرح اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ میں نے اپنی کتاب ’’قسم اس وقت کی‘‘ میں ان دلائل کو کچھ اختصار سے بیان کیا ہے۔
ان میں سے ایک سادہ ترین دلیل یہ ہے کہ کوئی عام انسان چاہے وہ پیش گوئی کرنے کی کتنی ہی صلاحیت رکھتا ہو، مستقبل کے واقعات اتنی قطعیت سے نہیں بیان کرسکتا جس طرح اللہ کے نبی علیہ السلام نے بیان کیے۔ یہ پیش گوئیاں فرد، قوم اور بین الاقوامی حالات تینوں سے متعلق تھیں۔ مثلاً آپ نے قرآن مجید میں ابولہب کی ہلاکت کی پیش گوئی کی۔ آپ نے اپنی قوم کے متعلق بتا دیا تھا کہ جس وقت قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی، اس کے بعد وہ خود اس سرزمین میں نہ رہ سکے گی۔ یہ دونوں پیش گوئیاں اس وقت کی گئیں جب مکہ میں مسلمانوں کے لیے جان بچانا دشوار ہوچکا تھا۔ پھر آپ نے رومی سلطنت کی بدترین شکست کے زمانے میں یہ بتا دیا تھا کہ وہ عنقریب ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ یہ سب کچھ بعینہ چند برسوں میں ہوگیا۔ ڈاکٹر نوحا نے کہا تھا کہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصنیف ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کوئی مصنف مستقبل کا ایسا صاف اور صحیح نقشہ کیسے کھینچ سکتا ہے۔ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کرسکتے ہیں۔
مگر اس خاتون اینکر نے یہ نہیں کیا۔ اس کے بجائے ایک اسکالر سے بحث کرتی رہی اور آخرکار اسے پروگرام سے نکال دیا۔ حالانکہ اگر وہ خود معقول جواب نہیں رکھتی تھی تو ڈاکٹر نوحا کے اعتراضات سنتی اور اگلے پروگرام میں کسی اچھے اسکالر کو بلا کر اس سے جواب لے لیتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے رویے مسلمانوں میں اس لیے مقبول ہیں کہ وہ جذباتی ہوجانے، اسلام اور پیغمبر اسلام سے اظہار عشق کرنے اور معترض پر فتوے بازی کرنے اور اسے قتل کر دینے کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس وڈیو کے ذیل میں جو تبصرے آئے ان میں اطمینان سے کہا گیا کہ ڈاکٹر نوحا کو قتل کر دینا چاہیے۔ خود ڈاکٹر نے جو چہرے کا پردہ کیے ہوئے تھی پروگرام کے آغاز میں یہ کہا کہ وہ پردہ خود کو چھپانے کے لیے کیے ہوئے ہیں کہ اسے قتل نہ کر دیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام علم و عقل پر اس درجہ میں ثابت شدہ دین ہے کہ اسے کسی معترض کے اعتراض سے کوئی خطرہ نہیں۔ اسلام کو اصل نقصان یہ انداز فکر پہنچا رہا ہے جو بے قابو جذباتیت سے عبارت ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں اسی جذباتی انداز میں بات کرنے والے لوگ بہت مقبول ہیں۔ یہی آج شان مسلمانی بن چکی ہے۔ جبکہ معقولیت کے ساتھ اسلام کی سچائی پیش کرنے والوں کی کوئی قدر و قیمت مسلمانوں کے معاشرے میں نہیں۔