Honey Trap – Abu Yahya
امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کا شمار دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے قبل یہی پانچ ملک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت شمار ہوتے تھے۔ اس زمانے میں دیگر بعض ممالک نے بھی ایٹمی اسلحہ کے حصول کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ان میں اسرائیل کا نام سرفہرست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے مغربی طاقتوں کی مدد سے سن ساٹھ کی دہائی میں یہ صلاحیت حاصل کرلی تھی، مگر بین الاقوامی دباؤ کے خوف سے اس صلاحیت کا اظہار نہیں کیا۔
1986 میں دنیا کو پہلی بار اسرائیل کی ایٹمی طاقت کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب صحرائے نقب میں واقع اسرائیلی ایٹمی تنصیب DIMON کے ایک اہلکار مردکائی ونونو نے برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کو ایک انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں اس نے اسرائیل کے خفیہ ایٹمی پروگرام کی تفصیلات سے پہلی دفعہ پردہ اٹھایا۔ جس سے دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔
چنانچہ اسرائیل کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس سے قبل یہ اہلکار مزید مسائل پیدا کرے اسے واپس اسرائیل لا کر اس کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے۔ لہٰذا اسے پھانسنے کے لیے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ایک Honey Trap یادامِ الفت تیار کیا۔ موساد کی ایک انتہائی حسین خاتون ایجنٹ نے مردکائی ونونو سے لندن میں دوستی کی۔ اسے اپنے حسن کے جال میں پھنسایا۔ پھر اسے تفریح کے لیے روم چلنے کی پیشکش کی۔ روم کے ایک ہوٹل میں اسے نشہ آور دوا کھانے میں ملا کر دی گئی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو سامنے کوئی دلربا حسینہ نہیں، اسرائیل کی عدالت تھی، جس نے اسے غداری کے الزام میں 18 سال قید کی سزا سنا دی۔
یہ واقعہ جو ایک فرد پر گزرا، ہر انسان کا حقیقی مسئلہ ہے۔ آزمائش کی اس دنیا میں انسان ہر لمحہ حالت جنگ میں ہے۔ اس کے دشمن شیطان نے اس کے سامنے طرح طرح کے Honey Trap بچھا رکھے ہیں۔ انسان دنیا کے اس جال کو جال نہیں سمجھتا۔ وہ ساری زندگی دنیا کی ظاہری خوبصورتی اور لذت کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس حسن کے پیچھے جہنم کی جو قید چھپی ہے، وہ اسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کے فرشتے موت کی بیہوشی لیے اچانک نمودار ہوتے ہیں اور جب آنکھ کھلتی ہے تو جہنم کے قید خانے کے سوا کچھ اور سامنے نہیں رہتا۔
کامیاب انسان وہ نہیں جس نے دنیا میں بہت ترقی کی۔ کامیاب انسان وہ ہے جس نے دنیا کے Honey Trap میں پھنسنے کے بجائے، خدا کی ابدی جنت کی ابدی نعمتیں حاصل کرلیں۔