ہاتھی اور انسان کا کنیہ ۔ فرح رضوان
شاید، تب میری عمر 9-8 سال ہو گی، "ان دنوں” سندھ کے پرسکون اور پر فضا شہر حیدرآباد میں رہا کرتے تھے، اور تب وہاں نکلنے والے بڑ ے جلوسوں کا ٹریڈ مارک ہوا کرتا تھا، ہاتھی- پورے شہر میں یہ اکلوتا ہاتھی تھا جو عام دنوں میں تو چڑیا گھر میں ہوتا لیکن کسی بھی اہم اور بڑے جلوس میں اس کی شرکت مہمان خصوصی کے طور پر لازمی ہوا کرتی تھی، جلوس والے روز ہاتھی کی ٹور ہی الگ ہوتی، قیمتی پوشاک اور سر سے پیر تک زیورات پہنے خراماں اور بارعب چال کے ساتھ وہ وہاں سے گزرتا تو سارے بچے والہانہ اس کا خیرمقدم کرتے, ہمارے گھر کے سامنے کافی کشادہ سڑک تھی، سو یہ جلوس عین گھر کے سامنے سے گزرتے، اور یہ منظر ہماری آنکھوں میں جم جاتے، چھوٹے سے شہر میں کوئی اور تفریح تو تھی نہیں تو ایک طرح سے یہ تفریح بھی تھی اور کراچی والے تمام ننھیالی ددھیالی کزنز پر دھاک جمانے کا واحد ذریعہ بھی، کیونکہ صرف ہاتھی ہی ایک چیز تھی جو وہاں اس طرح میسر نہ تھی۔
یہ ہاتھی انتہائی انسان دوست تھا، کیسا ہی شور شرابا ہو اس کی مستانی و باوقار چال میں کوئی کمی نہ آنے پاتی، ہم جب چڑیا گھر جاتے، تو اسے اسی مدھم رفتار میں بچوں کوسیر کراتے ، مستی میں ماؤتھ آرگن بجاتے، تماشائیوں کو اپنی سونڈ سے آداب بجا لاتے، اور داد وصول کرتے دیکھتے، وہ اس چھوٹے سے شہر کے لوگوں کا قیمتی اثاثہ بھی تھا اور چڑ یا گھر کی رونق بھی، حالانکہ یہ میڈیا کا دور نہیں تھا لیکن یہ خبر بھی تو چھوٹی نہیں تھی کہ کل شام حیدرآباد کے چڑیا گھر رانی باغ کا ہاتھی اچانک پاگل ہوگیا، اس پر سوار بچوں اور چڑیا گھر میں موجود باقی افراد کو اس کے دیوانے پن سے بچانے کے لیے مہابت نے اپنے خنجر سے اس کی پیشانی پر کئی وار کئے لیکن بہت دیر تک ہر تدبیر ناکام ہونے کے بعد مقامی فوجی افسر کو اسے گولی مار کر ہلاک کرنا پڑا۔
تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ایک شخص کو دیکھ کر اچانک غصے میں آگیا اور بے قابو ہو گیا— اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ اس وقت جس ایک ہی فیملی کے درجن بھر بچے اس پر سوار تھے وہ ہمارے بالکل پڑوس میں تھے اور فرسٹ ہینڈ معلومات سے پتہ چلا کہ معاملہ واقعی خطرناک ہو گیا تھا، چھٹیوں میں آئے ہوئے کزنز سمیت سب ملا کر درجن بھر بچے اور صرف ایک نوجوان چاچو ہاتھی پر سوار ہوئے ہی تھے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو دیکھ لیا جو کبھی اس کا معالج رہ چکا تھا، ہاتھی کے پاؤں میں کبھی کوئی زخم تھے جن کو داغا گیا تھا، یہ داغ اس ہاتھی کے سینے میں چھپے ہوئے تھے لہذا جوں ہی وہ تکلیف دینے والا اس کے سامنے آیا ہاتھی پوری قوت سے اس پر جھپٹا اور پھر اپنے مدار سے نکل کر چاروں جانب دوڑنا شروع ہو گیا۔ اوپر بیٹھے بچوں کی اللہ تعالیٰ نے بہت حفاظت فرمائی کہ انھیں درختوں کی ٹہنیوں اور بجلی کے تاروں اور چھلانگیں لگانے سے رگڑ کے باعث صرف معمولی زخم اور خراشیں ہی آئی تھیں۔
اس تمام تر صورت حال کے بعد ہم نے زندگی میں پہلی بار کچھ الفاظ نئے سنے اور ان کے معنی کو سمجھا۔ وہ تھے کینہ، بغض، عناد اورعداوت، گھر میں موجود سبھی بزرگوں نے اس واقع پر تبصرے کے دوران کئی بار یہ الفاظ دوہرائے تو ہم سب بچوں نے ان کے مطلب دریافت کئے۔ تب ابو نے ہمیں تفصیل سے نہ صرف ان کے معنی بتائے بلکہ ان صفات کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا، پھر ہمیں ہاتھی کی لاش دکھانے بھی لے گئے، ڈھیروں من وزنی ہاتھی ڈھیر ہوا پڑا تھا جسم پر قیمتی پوشاک اور زیورات کے بدلے لاتعداد مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ تماش بین عبرت پکڑ رہے تھے کہ اتنے انسان دوست کو محض اس کی ایک صفت کینے نے خسارے میں مبتلا کر دیا تھا۔
اب اتنے سالوں کے تجربات کے بعد یہی جانا ہے کہ واقعی یہ کینہ، بغض، عناد و عداوت حیوانی صفات ہیں، ہمیں ہمیشہ اپنا تزکیہ اوراستغفار کرتے رہنا چاہیے، لوگوں کو دل سے معاف کر دینا چاہیے کیونکہ یہیں سے غیبت اور حسد اور ڈھیروں ڈھیر نیکیوں کے، راکھ کے ڈھیر میں بدل جانے کی ابتد ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ کچھ لوگ آپ کی زندگی میں بڑی آزمائش ہوتے ہیں، تو یقین کریں کہ ان کا علاج وہی ہے جو کسی بھی لاعلاج مرض کا ہوتا ہے، یعنی حتی الامکان احتیاط، پرہیز، چشم پوشی، صبر، نماز اور دعا، کیونکہ کیکٹس کے پودے کے چھو جانے پر اگر اس کو جواباً ضرب لگائیں گے تو مزید کانٹوں اوراذیت کو جھیلنا پڑے گا، لہذا ان پر اپنی توانائی وقت اور دماغی صلاحیتوں کو برباد نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کر دیں اور اس سے عدل نہیں فضل مانگیں، اور پھر اس کیس کا ذکر خود سے بھی نہ کریں، کیونکہ یہ تو دنیا کے کورٹس کا بھی اصول ہے کہ عدالت کے زیر سماعت کیس پر اس وقت تک تبصرے نہیں کیے جا سکتے جب تک عدالت اپنا فیصلہ نہ سنا دے، اور آپ نے تو اعلی ترین عدالت میں کیس درج کیا ہے، تو کیسا کھٹکا اور پہلے یا بعد میں، خود سے یا اوروں سے کیسا ذکر کیسا تبصرہ؟