تاریخ اور ختم نبوت 1 ۔ ابویحییٰ
آج کے اس کالم میں میرے پیش نظر ختم نبوت کا ایک اہم پہلو سامنے لانا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اہم ترین ہے، مگر ہمارے ہاں کبھی زیر بحث نہیں آتا۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ جس طرح یہ چیزیں زیر بحث آتی ہیں، وہاں دین کے بنیادی ماخذ بہت کمزور جگہ پر نظر آتے ہیں اور مستشرقین ان کی سند اور صداقت دونوں پر زبردست سوالیہ نشان اٹھا دیتے ہیں۔ اس انفارمیشن ایج میں جب گھر گھر انٹرنیٹ ہے اور وہ تمام تنقیدی مواد جس میں اسلام کی حقانیت پر سوالات اٹھائے ہیں چند بٹن دبا کر سامنے آجاتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ اسلام کی حقانیت اور سچائی کا اثبات ان مسلمہ علمی بنیادوں پر کیا جائے جن کو دنیا مانتی ہے۔
الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے یہ بڑی مہربانی کی ہے کہ دین اسلام کو ختم نبوت کے بعد اس طرح محفوظ کیا ہے کہ قیامت تک اس حوالے سے کوئی سوال علمی بنیادوں پر اٹھانا ممکن نہیں ہے۔ اس کا تعلق چونکہ تاریخ سے ہے اس لیے پہلے تاریخ کے علم کے حوالے سے کچھ بنیادی مقدمات کو واضح کرنا ضروری ہے۔
تاریخ کا علم
تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے جو اکثر ان کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔ تاہم قومیں اور گروہ مردہ ہوجائیں تب بھی ان کی تاریخ غیر مستند داستانوں اور مزید بگڑ کر دیومالائی کہانیوں کی شکل میں انسانیت کو منتقل ہوتی رہی ہے۔ جس طرح فرد اپنے حافظے کے سہارے اپنی ذات اور اپنے ماحول کو سمجھتا ہے اسی طرح قومیں اپنے وجود کو ہمیشہ اپنی تاریخ سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت نے ہمیشہ اپنی تاریخ کو آگے منتقل کیا ہے۔ تاریخ میں ماضی کے واقعات کا یہ انتقال تین طریقوں سے ہوا ہے۔
تاریخ منقل ہونے کے تین طریقے
تاریخ کے انتقال کا پہلا طریقہ زبانی روایات کا ہے۔ یعنی لوگ کسی واقعے کو بیان کرنے لگتے ہیں۔ یہ آج بھی ہوتا جب کسی جگہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو دیکھنے والے اس کو آگے ان لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں جو براہ راست اس واقعے کے گواہ نہیں ہوتے۔ یہی معاملہ ایک نسل سے دوسری نسل کا ہوتا ہے کہ لوگ اپنی اگلی نسلوں تک اہم واقعات زبانی بیانات کی شکل میں منتقل کرتے ہیں۔ یہی زمانہ قدیم میں ہوتا تھا۔
تاریخ کے انتقال کا دوسرا طریقہ تحریر کا ہے۔ یعنی کسی واقع کے پیش آنے پر کوئی ہم عصر شخص جس نے یہ واقعہ دیکھا ہو یا ان لوگوں سے براہ راست سنا ہو جو وہاں موجود تھے، وہ اسے لکھ دے۔ ابتدائی زمانوں میں اس کی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ کیونکہ اول تو فن تحریر عام نہیں تھا۔ دوسرے یہ کہ انسانی سماج جب ابتدائی شکل میں تھا تو اس کی اہمیت کا کوئی احساس تھا نہ ضرورت۔ کیونکہ زبانی روایات میں سب کچھ بیان ہو ہی جایا کرتا تھا۔ تاہم علم اور سماج کے ارتقا کے ساتھ تاریخ کو لکھا جانے لگا اور عام طور پر مغربی علم میں ہیروڈوٹس جس کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح تھا، پہلا مورخ سمجھا جاتا ہے۔ گرچہ مشرق میں مذہبی علم کی روایات اور مذہبی کتب کو بہت پہلے ہی مرتب کر دیا گیا تھا۔
تاریخ کے انتقال کا تیسرا ذریعہ کسی قوم سے متعلق آثار قدیمہ اور اس کے باقیات ہوتے ہیں یا پھر زمانہ قدیم میں کسی قوم یا گروہ کی محفوظ رہ جانے والی کچھ نشانیاں ماہرین کی کوششوں سے منظر عام پر آجاتی ہیں اور ماضی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
قومی داستانیں اور مصدقہ تاریخ
تاریخ کے بارے میں ہمیشہ سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ گرچہ یہ ماضی کے واقعات کا ایک ریکاڑد ہے، مگر اس ریکارڈ میں کیا بات سچی ہے اور کیا جھوٹی یا پھر مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ تاریخ کے ماہرین کوشش کرتے ہیں کہ ماضی کے واقعات سے متعلق ملنے والی معلومات کی دیگر خارجی ذرائع سے تصدیق کریں۔ اگر تصدیق نہیں ہوپاتی تو ایسے واقعات کو کسی خاص قوم یا کلچر کی داستان یا دیومالا سمجھا جاتا ہے۔ جیسے یونانی اور ہندی دیومالا اور یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات کے ایک بڑے حصے کو بھی بڑی حد تک اسی پہلو سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی اجتماعی طور پر منتقل ہونے والے واقعات کا اصل مسئلہ تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خارجی ذرائع سے ان کی تصدیق ہونے کے ذرائع معدوم ہوتے چلے جاتے تھے۔ کیونکہ قومیں ختم ہوجاتی ہیں، ہجرت کرجاتی ہیں، دوسری اقوام میں ضم ہوجاتی ہیں، شکست کھا کر منتشر ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں تاریخی حقائق معدوم ہوجاتے ہیں یا پھر ان کے ساتھ خواہشات اور اضافے جمع ہونے لگتے ہیں۔ مصدقہ تاریخ ماضی کے دھندلکوں، توہمات کی گرد اور مبالغوں کی کہر میں کہیں چھپ جاتی اور صرف غیر مصدقہ داستانیں، کہانیاں اور اساطیر الاولین ہی باقی بچتی تھیں۔ جو ظاہر ہے کہ تاریخ میں کوئی معتبر چیز نہیں سمجھی جاتیں۔
تاریخ کا انفرادی اور اجتماعی ریکارڈ
ان درست خبروں میں بھی دو طرح کی خبریں یا معلومات ہوتی ہے۔ ایک وہ جو انفرادی طور پر کوئی فرد یا چند افراد بیان کر رہے ہوں۔ دوسری وہ جو سب کے سب لوگ بیان کر رہے ہوں۔ ان دونوں کا فرق ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ 1947 میں برصغیر ہندوستان اور پاکستان نامی دو ملکوں میں تقسیم ہوگیا۔ یہ واقعہ اجتماعی سطح پر پیش آیا۔ کروڑوں لوگ براہ راست اس سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے براہ راست اس حقیقت کا مشاہدہ کیا۔ یہ وہ خبر ہے جو پوری کی پوی قوم اجماعی طور پر آگے منتقل کر رہی ہے۔ آج کے دن تک دنیا میں وہ دو اقوام موجود ہیں جو اس سے متاثر ہوئیں اور ان کی علمی روایت پوری قوت سے اس واقعے کی تصدیق کر رہی ہے۔ ایسے کسی واقعے کے جھوٹ ہونے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔ اس واقعے کو اپنی تصدیق کے لیے کسی خارجی ذریعے، کسی تحریری تاریخ، کسی انفرادی شہادت کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ ایک مسلمہ ہوتا ہے۔ اس کا اگر انکار کیا جائے گا تو پھر اس بات کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے کہ زمین ہر روز سورج کی روشنی سے منور ہوتی ہے۔
تاہم اس طرح کی تاریخ صرف اجتماعی اور قومی معاملات کو ریکارڈ کرسکتی ہے۔ جبکہ تاریخ ظاہر ہے کہ اس سے کہیں زیادہ چیزوں کا احاطہ کرتی ہے۔ خاص طو رپر انفرادی نوعیت کے تمام واقعات کچھ خاص افراد کے ساتھ ہی پیش آرہے ہوتے ہیں اور انھی سے متعلق لوگوں کی گواہی پر ان کی تفصیل مرتب کی جاتی ہے۔ جیسے پاکستان کے بانی قائداعظم یا علامہ اقبال کا انتقال جس روز ہوا تھا، اس دن کیا واقعات پیش آئے۔ ان کی آخری گفتگو اور کیفیات کیا تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات چند لوگوں کے سامنے ہی پیش آرہے ہوتے ہیں، اس لیے انھی کے بیانات اور گواہی کی بنیاد پر دوسرے لوگوں کو اس کا علم ہوتا ہے۔ اس ذریعے سے گرچہ کسی واقعے کی جزوی تفصیلات نیز کسی فرد کی ذاتی زندگی اور معاملات کی تفصیل حاصل ہو رہی ہوتی ہے تاہم اس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ بات کچھ سے کچھ ہوگئی ہو یا اصل واقعے کے بیان میں کوئی کمی بیشی ہوگئی ہو۔ اسی طرح ایک ہی واقعے کے حوالے سے مختلف اور متضاد معلومات بھی سامنے آجاتی ہیں۔ چنانچہ پہلے کی شکل میں اگر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مسلمہ معلومات سامنے آتی ہیں، مگر کمی یہ رہ جاتی ہے کہ تفصیلی اور جزئی معلومات اس ذریعے سے کبھی سامنے نہیں آتیں جبکہ دوسرے ذریعے سے تفصیلی اور جزئی معلومات ملتی ہے، مگر اس میں ہمیشہ غلطی، کمی بیشی اور تضاد کا امکان رہتا ہے۔
رسول اللہ صلی وعلیہ وسلم کا معجزہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ یہ ہے کہ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تاریخ میں پہلی دفعہ اس معجزے کو جنم دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہستی جس طرح ایک مسلمہ اور ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے، ٹھیک اسی طرح آپ کی لائی ہوئی تعلیمات اپنی جزئی تفصیلات میں بھی ایک تاریخی مسلمے کے طور پر محفوظ کی گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو علم تاریخ کے لیے بھی ایک بالکل نئی چیز تھی۔ جیسا کہ پیچھے بیان ہوا اس سے قبل انسانی تاریخ صرف اس بات سے واقف تھی ماضی کے واقعات انفرادی رپورٹس کی بنیاد پر آگے منتقل ہوتے تھے، مگر ہمیشہ ان میں غلطی اور کمی بیشی کا امکان رہتا تھا جب کہ اجتماعی اور قومی علم کے ذریعے سے صرف بڑے واقعات ہی منتقل ہوتے تھے۔ اور ان میں بھی یہ مسئلہ تھا کہ زیادہ وقت نہیں گزرتا تھا کہ قوم ماضی کے غبار میں گم ہوجاتی اور اجتماعی اور قومی تاریخ کے بڑے واقعات بھی داستان اور اگلوں کی غیر مستند اور سنی سنائی داستان ہی بن کر رہ جاتے تھے۔
تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معجزہ ہوا کہ آپ کی ہستی کے ساتھ آپ کی تعلیمات کا ریکارڈ بھی قومی طور پر آگے منتقل ہوا اور ایک ناقابل تردید مسلمہ کے طور پر آج دنیا میں موجود ہے۔ یہ معجزہ کس طرح وجود میں آیا یہ سمجھنا قارئین کے لیے بہت آسان ہوگا، اگر وہ تاریخ کے حوالے سے پیچھے بیان کیے گئے حقائق کو ذہن میں رکھیں گے۔ ساتھ ہی اس معجزے کو سمجھنے کے لیے اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیا تاریخ وجود میں آئی۔