حسد کو اپنا دوست بنائیں ۔ جاوید چودھری
خاتون کا تعلق میانوالی کے کسی چھوٹے سے گاؤں سے تھا، وہ گرتے پڑتے تعلیم حاصل کرتی رہی تھی، اسے ایف ایس سی کے بعد لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا، اس کی کلاس میں دو طالب علم بچپن سے ایک دوسرے کے دوست چلے آرہے تھے، آپ ان میں سے ایک کا نام مظہر سمجھ لیں اور دوسرے کا نام امجد۔ یہ دونوں بہت ذہین اور محنتی تھے اور عموماً کلاس میں پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرتے تھے، یہ دونوں ذہانت اور محنت میں یکساں تھے لیکن شکل و صورت کے معاملے میں دونوں میں فرق تھا۔ مظہر خوبصورت اور وجیہہ شخض تھا جبکہ امجد عام نین نقش اور گندمی رنگت کا مالک تھا۔ یہ دونوں جب میڈیکل کالج پہنچے اور وہاں انہیں خواتین کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو ان کے درمیان ایک خاموش کشمکش شروع ہوگئی، مظہر اپنی مردانہ وجاہت اور خوبصورتی کے باعث خواتین میں پاپولر ہوگیا جبکہ امجد کو خواتین گھاس نہیں ڈالتی تھیں چنانچہ امجد کے دل میں مظہر کے خلاف حسد کا بیج پیدا ہوگیا، یہ بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بنتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ حسد کی آگ میں جلنے بجھنے لگا۔ مظہر امجد کی اس تبدیلی کو نہ بھانپ سکا، وہ اسے اسی طرح اپنا دوست سمجھتا رہا، مظہر کے دوستوں نے اسے امجد میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کی مگر اس نے ان باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھا وہ بدستور امجد کو اپنا ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ سمجھتا رہا۔ یہاں میں اس داستان کو ایک لمحے کے لیے روکتا ہوں اور آپ کو حسد کے جذبے کی کیمسٹری سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ حسد انسانی ذات کا ایک ایسا جذبہ ہے جو سب سے پہلے محنت پر حملہ آور ہوتا ہے، آپ دنیا بھر کے حاسدین کو دیکھ لیجیے یہ لوگ آپ کو ہمیشہ نکمے دکھائی دیں گے، یہ حقیقت ہے دنیا کا کوئی حاسد محنت نہیں کرسکتا کیوں؟ کیونکہ محنت اور حسد دونوں کبھی ایک ذات میں اکٹھے نہیں ہوتے۔ میں سٹوری کی طرف واپس آتا ہوں، امجد کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ حسد میں مبتلا ہوا تو اس نے محنت ترک کر دی، وہ سارا دن مظہر کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہتا، اس دوران امتحانات ہوئے، امجد بری طرح فیل ہوگیا۔ مظہر کو اس کی ناکامی پر بہت افسوس ہوا لیکن امجد نے اس ناکامی کو بھی مظہر کے کھاتے میں ڈال دیا، وہ مظہر کی ہمدردی کو منافقت اور چالاکی گرداننے لگا۔ یہ سلسلہ مزید ایک سال چلا، اس دوران امجد دوسری مرتبہ فیل ہوگیا، وہ میڈیکل کالج سے فارغ کر دیا گیا، وہ بوریا بستر باندھ کر واپس گاؤں چلا گیا جبکہ مظہر نے تیسری مرتبہ بھی ٹاپ کیا، وہ بڑی تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا، امجد کا حسد گاؤں پہنچ کر انتقام کی شکل اختیار کر گیا، وہ مظہر کو اپنا دشمن سمجھنے لگا جبکہ مظہر اس کو بدستور اپنا دوست سمجھتا تھا اور پھر دونوں کی زندگی میں وہ رات آگئی، مظہر لاہور سے واپس اپنے گاؤں جا رہا تھا اس کی واپسی کا صرف امجد کو علم تھا، مظہر کا گاؤں بڑی سڑک سے ذرا ہٹ کر تھا اور لوگ عموماً بڑی سڑک پر اترتے تھے اور وہاں سے پیدل چلتے ہوئے گاؤں جاتے تھے، اس رات مظہر سڑک پر اترا امجد اسے لینے کے لیے سڑک پر موجود تھا، وہ دونوں گاؤں کی طرف چل پڑے، راستے میں ایک ویران جگہ آتی تھی اس جگہ پہنچ کر امجد نے پستول نکالا، مظہر کو للکارا اور چھ گولیاں اس کے سینے میں داغ دیں، یہ اس کے حسد کی تیسری سٹیج تھی، اس سٹیج پر پہنچ کر انسان انسان سے مجرم بن جاتا ہے، امجد بھی مجرم بن چکا تھا، اس واقعے کے آخر میں کیا ہوا، مظہر اپنی جان سے گیا اور امجد آج کل کال کوٹھڑی میں پھانسی کا انتظار کر رہا ہے جبکہ گاؤں دو باصلاحیت ڈاکٹروں سے محروم ہوگیا، مجھے یہ واقعہ میانوالی کی خاتون نے خط کے ذریعے بھجوایا اور آخر میں سوال کیا، ان دونوں باصلاحیت نوجوانوں کا قاتل کون تھا؟
میں تین دن سے نوجوان کا قاتل تلاش کر رہا ہوں، میں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں ان دونوں کا قاتل حسد تھا! محنت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہے، انسان اللہ تعالی کی واحد مخلوق ہے جو کسی بھی حال میں محنت، کوشش اور جدوجہد ترک نہیں کرتی، آپ کبھی ’’بم بلاسٹ‘‘ یا حادثوں میں زخمی ہونے والے لوگوں کو دیکھئے، ان لوگوں کا سارا جسم زخموں سے چھلنی ہوجاتا ہے لیکن یہ لوگ اس کے باوجود محنت ترک نہیں کرتے، لوگوں کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں تو یہ کہنیوں کو ہاتھ بنا لیتے ہیں اور اگر خدانخواستہ ان کے بازو کٹ جائیں تو یہ پاؤں کی انگلیوں میں برش پکڑ کر خطاطی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہ انسان کا محنت کا جذبہ ہے، یہ جذبہ اسے کسی حال میں پسپا نہیں ہونے دیتا لیکن حسد وہ آگ ہے جو محنت کے جذبے کو بھی جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ آپ نے اکثر جانوروں کو دیکھا ہوگا، یہ جب کسی مادہ کا پیچھا کرتے ہیں اور اس دوران اگر مادہ اپنی مرضی سے کسی ایک نر کا انتخاب کر لے تو باقی نر پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن انسان اس معاملے میں کبھی پسپائی اختیار نہیں کرتا، یہ ہمیشہ انتقام پر اتر آتا ہے، یہ ناپسندیدگی اور ناکامی پر اکثر اوقات خواتین کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے یا انہیں اور ان کے منگیتروں کو گولی مار دیتا ہے، یہ سب حسد کے جذبے کی کارستانی ہے چنانچہ میں سمجھتا ہوں حسد انسان کی زندگی کا انتہائی خوفناک جذبہ ہے، یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کے ایمان تک کو کھا جاتا ہے۔
میں آپ کو یہاں ایک اور دلچسپ بات بتاتا چلوں، انسان کی تاریخ میں آج تک جس شخص نے بھی ترقی کی اس نے اپنے حسد کے جذبے کو مسخر کیا، آپ ایڈیسن سے لے کر آئین سٹائن تک اور ابراہم لنکن سے لے کر مہاتما گاندھی تک اور بل گیٹس سے لے کر ڈاکٹر یونس تک دنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی فہرست نکال کر دیکھ لیں۔ یقین کیجیے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اندر کے حسد کو سمجھا اور نہ صرف اس پر قابو پایا بلکہ اپنے اس جذبے کو مثبت شکل بھی دی اور یہ وہ کامیابی تھی جو انہیں کہیں سے کہیں لے گئی، قدرت نے امجد کو بھی یہ موقع دیا تھا، قدرت نے اسے ذرا سا بد صورت بنایا تھا اور اس کے بعد اسے مظہر جیسے خوبصورت اور ذہین شخص کے ساتھ بٹھا دیا تھا تاکہ یہ حسد محسوس کرے اور یہ حسد اس کے اندر ایک ایسی طاقت پیدا کر دے جو اسے ترقی یافتہ لوگوں کی فہرست میں شامل کر دے، امجد کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا لیکن یہ اسے مثبت انداز سے استعمال نہ کرسکا۔ یہ اپنی اس طاقت کو سمجھ نہ سکا چنانچہ یہ اس جذبے کی رو میں بہہ گیا اور اسی نے مظہر کا بھی نقصان کر دیا اور خود بھی کال کوٹھڑی میں جا پہنچا، اگر امجد اس جذبے کو سمجھ جاتا، یہ اس جذبے کو اپنی طاقت بنا لیتا تو یہ آج نہ صرف اس ملک کا کامیاب ڈاکٹر ہوتا بلکہ لوگ اس کی بدصورتی پر رشک بھی کرتے۔
میں اب آتا ہوں اس تکنیک کی طرف جس کی مدد سے ہم اپنے حسد کو مثبت شکل دے سکتے ہیں، یہ ایک بہت سادہ اور آسان طریقہ ہے ہمیں چاہیے ہم جب بھی کسی سے حسد میں مبتلا ہوں تو ہم فوری طور پر اپنی محنت بڑھا دیں، اگر ہم حسد سے قبل آٹھ گھنٹے کام کرتے تھے تو ہمیں فوری طور پر 12 گھنٹے کام شروع کر دینا چاہیے، اس طرح صرف ایک ماہ گزرے گا اور یہ حسد رشک میں بدل جائے گا اور اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکے گی، صرف محنت وہ جذبہ ہے جو ہمارے حسد کو رشک میں بدل سکتا ہے اور آپ انسان کی بدقسمتی ملاحظہ کیجیے یہ حسد میں گرفتار ہوتے ہی سب سے پہلے محنت ترک کرتا ہے اور یوں امجد جیسے انجام کا شکار ہو جاتا ہے، حسد انسانی زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ثابت ہوسکتا ہے اگر آپ حسد کی قدرو قیمت اور طاقت کو سمجھ جائیں اور آپ اس کا مثبت استعمال سیکھ جائیں، آپ یقین کیجیے حسد انسان کا سب سے اچھا دوست ثابت ہوسکتا ہے، آپ بس اس دوست سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھ لیں۔