جذبہ حسد اور جدید امتحانی طریقہ ۔ محمد مبشر نذیر
کمرہ امتحان میں طالب علموں میں نقل روکنے کے لیے ایک جدید طریق کار وضع کر لیا گیا ہے جس کے مطابق ہزاروں سوالوں کا ایک ڈیٹا بیس بنا لیا جاتا ہے اور کمپیوٹر اس ڈیٹا بیس میں سے ایک متعین تعداد میں سوال نکال کر امتحانی پرچہ بنا لیتا ہے۔ اس طرح ہر طالب علم کو دوسرے سے مختلف امتحانی پرچہ ملتا ہے۔ امتحان کے بعد ایسے طالب علم جنہیں زیادہ تعداد میں مشکل سوالات ملے ہوتے ہیں، اضافی نمبروں کے مستحق ہوتے ہیں۔ ان کے امتحانی سکور کو ایک طے شدہ فارمولے سے ایڈجسٹ کرکے اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے کسی سے کوئی زیادتی بھی نہیں ہوتی اور طالب علم نقل بھی نہیں کر پاتے۔
کمرہ امتحان میں کوئی طالب علم دوسرے سے حسد میں مبتلا نہیں ہوتا کہ اسے یہ سوال کیوں ملا، مجھے کیوں نہیں ملا کیونکہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں مجھ سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس دنیا میں جب ایک شخص دوسرے کو اللہ کی کوئی نعمت ملتے ہوئے دیکھتا ہے تو جذبہ حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دنیا میں لوگ ایک دوسرے سے حسد اس لیے کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ اگر اس میں کسی کو زیادہ نعمتیں مل گئی ہیں تو اسے مجھ پر فوقیت دی گئی ہے۔
یہ آخرت پر کامل ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا ایک بہت بڑا کمرہ امتحان ہے جس میں سب کو ایک دوسرے سے مختلف ٹیسٹ دیا گیا ہے۔ امتحان کے آخر میں ہر شخص کے رزلٹ کو اس کے امتحان کے آسان یا مشکل ہونے کی بنیاد پر ایڈجسٹ کیا جائے گا اور کسی سے کوئی زیادتی نہ کی جائے گی۔ اس لیے ایک دوسرے سے حسد میں مبتلا ہونا محض بے وقوفی ہے۔ دنیا کی نعمتیں امتحانی سوال ہیں نہ کہ امتحان کا رزلٹ۔ دنیا میں ہمیں جو بھی نعمت یا تکلیف ملتی ہے وہ محض آسان یا مشکل امتحانی سوالات ہیں جو ہمارے شکر اور صبر کا ٹیسٹ ہیں۔ نادان لوگ انہیں نتیجہ سمجھ کر حسد میں مبتلا ہوتے ہیں اور خدا کی ناشکری کے باعث اس امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں۔