ہمارے معاشرے کا اہم مسئلہ ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں شیطان کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے کہ اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ شیطان کہ نزدیک وہ حضرت آدم سے برتر تھا۔ اس کا یہ تکبر ہی اس پر اللہ کی لعنت کا سبب بن گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو چیز اپنے تکبر کی بنا پر شیطان نظر انداز کر گیا وہ یہ تھا کہ سجدہ کا حکم دینے والی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے جو آخری درجہ میں عدل کرنے والی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ میرٹ کے خلاف جا کر حضرت آدم کو وہ مقام دے دیں جس کے وہ مستحق نہیں تھے۔ چنانچہ انھوں نے اگر حضرت آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس بنیاد پر فرشتوں اور دیگر مخلوق کو انھیں سجدہ کرنے کا حکم دیا تو یہ عین میرٹ کے مطابق تھا۔
یہ میرٹ کیا تھا، آنے والے دنوں میں حضرت آدم نے اپنا میرٹ ثابت کر کے دکھایا اور یہ بتادیا کہ وہ کس پہلو سے شیطان سے بہتر تھا۔ قرآن مجید کے مطابق انکار سجدہ کے واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی بیوی حضرت حوا کو ایک باغ میں رکھا۔ اور ان کو ایک خاص درخت کا پھل چکھنے سے روک دیا۔ مگر شیطان ان دونوں کو ورغلاتا رہا یہاں تک کہ اس کے بہکاوے میں آکر ان دونوں نے اللہ کے حکم کا پاس نہ رکھا۔ مگر جیسے ہی ان کو احساس ہوا کہ ان سے غلطی ہوگئی ہے وہ فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوری قوت سے اس کے حضور رجوع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے منصب پر فائز کر کے دنیا میں بھیج دیا۔
اس واقعے میں حضرت آدم کی وہ فضیلت پوری طرح کھل کر سامنے آگئی جو شیطان میں کسی پہلو سے موجود نہ تھی۔ وہ فضیلت تھی اعتراف کرنے کی صلاحیت۔ شیطان اور آدم دونوں صاحب اختیار مخلوق تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کسی بھی دوسری مخلوق کے برعکس جو اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی، ان دونوں یعنی انسانوں اور جنوں کو یہ موقع ملا ہوا ہے کہ اللہ کے جس حکم کو چاہیں مانیں اور جس کو چاہیں نہ مانیں۔ اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ابلیس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے نہ صرف انکار کیا بلکہ جب اس کی غلطی پر اس کو متنبہ کیا گیا تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آیا۔ یہ ہٹ دھرمی اتنی بڑھی کہ اس نے ’’فبما اغویتنی‘‘ (یعنی جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے) کے گستاخانہ الفاظ کہہ کر اپنے جرائم کی ذمہ داری معاذ اللہ، اللہ رب العالمین پر ڈال دی۔
اس کے برعکس حضرت آدم سے جیسے ہی غلطی ہوئی انھوں نے کوئی عذر پیش کیے بغیر اللہ سے فوراً معافی مانگی۔ اپنی خطا کا اعتراف کیا۔ یہی اعتراف وہ چیز بنی جس کی بنا پر حضرت آدم کی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑھا دیا کہ منصب نبوت پر فائز کر کے ان کو دنیا میں بھیج دیا۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں لوگ اپنے باپ آدم کے بجائے ابلیس کے نقش قدم پر چلنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ عدم اعتراف ہمارے معاشرے کا اہم مسئلہ ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ خاص کر جنھیں اللہ نے زندگی میں کچھ صلاحیت، مواقع اور ذہانت دے رکھی ہوتی ہے وہ دوسروں کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کی مین میخ نکالنے اور لوگوں کی نگاہوں میں انھیں کمتر ثابت کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خاص نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی کسی کی خوبی یا اس کے کسی کارنامے کا اعتراف کرنے میں دو لفظ بھی ضائع نہیں کرتے، لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اس کی خامیوں، کمزوریوں اور عیوب کو چاہے وہ اس میں نہ پائی جائیں، نمایاں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طرز عمل سے فرزند ابلیس ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اس کے برعکس فرزندان آدم اعتراف میں جیتے ہیں۔ اعتراف کرنے کی یہی عادت ان کے لیے خدا کے قرب اور جنت میں ان کے اعلیٰ درجات کا سبب بن جائے گی۔