گناہ، ماحول اور صحبت ۔ ابویحییٰ
انسانوں کو گناہوں کی طرف لے جانے والا ایک اہم عامل انسان کا ماحول اور اس کی صحبت ہے۔ انسان تنہا نہیں جی سکتا۔ اسے بہرحال اپنے ذوق کے مطابق ہم مشرب ساتھیوں اور احباب و رفقاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دوست کچھ مشترکہ خصوصیات کے علاوہ اپنی شخصی کمزوریاں اور بری عادات بھی ساتھ لے کر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اپنی ان بری عادات کا زہر اس کے رگ و پے میں غیر محسوس طریقے سے گھول دیتے ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں اس بات کا ظہور سب سے بڑھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک بچے، نوجوان لڑکے یا لڑکی کی زندگی میں آنے والا دوست یا سہیلی اسے بہت سے گناہوں کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ بہت سے بچے گالیاں دینا ایسے ہی سیکھتے ہیں۔ فحش کلامی، آوارگی، جنسی بے راہ روی اور نشہ بازی جیسی بیشتر عادات بالعموم اسی طرح کی بری صحبت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان کا ماحول اور اس کا مطالعہ وغیرہ بھی اسے نافرمانی کی راہ تک لے جاتا ہے۔ ٹی وی اکثر لوگوں کی زندگی میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور اس کے ذریعے انٹرٹینمنٹ کے نام پر فواحشات بھی ان کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی معاملہ انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ کا بھی ہے۔
بندۂ مؤمن کا کام یہ ہے کہ جب وہ توبہ کی راہ پر قدم رکھے تو اس بات کا جائزہ لے لے کہ اس کے دوستوں کا حلقہ کس قسم کا ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ اگر اس کا ماحول برا ہے تو وہ لازماً اسے بدلے۔ وہ اپنے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ نہ آئیں تو پھر انھیں چھوڑ دے۔ وہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ غلط ماحول اور بری صحبت اسے دوبارہ بدی کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔
یہی بات قرآنِ مجید کی سورۂ توبہ میں کچھ اہلِ ایمان کی توبہ قبول کرنے کے بعد بطور نصیحت اس طرح کہی گئی ہے کہ صادقین کے ساتھ رہا کرو،(توبہ:119)۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے عمل سے اپنے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ اصلاح کا بہترین نسخہ ہے جو خود پروردگارِ عالم کا تجویز کردہ ہے۔