ٹائم مشین ۔ ابویحییٰ
وقت میں آگے یا پیچھے کی سمت سفر کرنا دور جدید کے انسان کی اہم ترین خواہش رہی ہے۔ سائنس کی ترقی کے ساتھ ہی انیسویں صدی سے اس موضوع پر فکشن تخلیق کیا جانے لگا تھا۔ پھر بیسویں اور اکیسویں صدی میں آئن انسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے عظیم ترین ماہرین طبیعیات اور سائنسدان اس کے امکانات تلاش کرتے رہے ہیں۔ تاہم اب تک اس سلسلے میں ہونے والا تمام تر کام نظریاتی نوعیت کا ہے۔ مثلاً ایک تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے جسے دور جدید کے سب سے بڑے سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے بار بار بیان کیا ہے کہ انسان اگر روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوجائے تو سائنس کے اصولوں کے تحت وقت میں سفر کرنا ممکن ہوگا۔
تاہم عملی طور پر یہ اور اس قسم کے دیگر نظریات ناقابل عمل ہیں۔ مثلاً جو سائنسی تھیوری یہ بتاتی ہے کہ روشنی کی رفتار حاصل کرنے کے بعد وقت میں سفر کرنا ممکن ہے وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس رفتار کے ساتھ ہی مادہ کی کمیت صفر ہوجاتی ہے یعنی اس رفتار پر انسان کا مادی وجود باقی نہیں رہ سکتا۔ یہ اور اس نوعیت کے متعدد اعترضات ہیں جن کی بنا پر یہ نظریات بس نظریات ہی ہیں اور حقیقت کا روپ دھارنے سے محروم ہیں۔
تاہم اس دنیا میں ایک اور قسم کی ٹائم مشین پائی جاتی ہے جو ہمیں اس قابل بنا دیتی ہے کہ ہم وقت میں سفر کر کے ماضی اور مستقبل کا مشاہدہ کرسکیں۔ یہ ٹائم مشین ایک ایسی ہستی کی تخلیق ہے جو ہر طرح کی مادی کمزوریوں اور محدودیتوں سے پاک ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو مکاں کی پابند ہے نہ زماں کی۔ مشرق ہو یا مغرب، آسمان ہو یا زمین ہر شے بیک وقت اس کی نگاہ میں ہے۔ ٹھیک اسی طرح ماضی کی کوئی داستان ہو یا مستقبل کا کوئی واقعہ، اللہ تعالیٰ ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہیں۔ انھوں نے یہ کرم کیا کہ اپنے اس علم کو انسانوں تک اپنی وحی اور اپنے کلام پاک کے ذریعے سے قرآن مجید کی شکل میں منتقل کر دیا۔
قرآنِ مجید بے شک و شبہ وہ کتاب ہے جو انسان کو وقت کی ہر محدودیت سے بلند کر کے بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل ہر چیز کی خبر دیتی ہے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت کیا ہوا تھا۔ فرعون و موسیٰ کے قصے کی تفصیلات کیا ہیں۔ ٹھیک اسی طرح قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ قیامت کے دن کیا ہوگا۔ زمین و آسمان کے ساتھ کیا گزرے گی۔ انسان و حیوان کے ساتھ کیا ہو گا۔ نیک و بد کے ساتھ کیا کچھ پیش آئے گا۔
ایک شخص یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ قرآنی ٹائم مشین محض ایک دعویٰ ہے۔ کوئی بھی شخص ماضی اور مستقبل کے نام پر کچھ بھی بیان کرسکتا ہے، ہم کیسے اس کی تردید و تصدیق کریں۔ یہی قرآن کریم کا معجزہ ہے کہ وہ نہ صرف ہمیں ماضی و مستقبل میں لے جاتا ہے بلکہ ٹائم مشین ہی کے بعض ایسے کمالات دکھاتا ہے جو اس کی سچائی کا ثبوت بن چکے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں۔ آج ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے مستقبل میں سفر کر کے یہ دیکھ لیا ہے کہ ہزار سال بعد کیا ہوگا تو ہمارے پاس اس کی تصدیق و تردید کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ اس سے یہ پوچھا جائے کہ بتاؤ ہماری زندگی کے اگلے دس سالوں میں کیا ہوگا۔ وہ جو کچھ بتائے اگر دس سال بعد ٹھیک یہی ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔
ٹھیک یہی قرآن مجید نے بھی کیا ہے۔ اس نے قیامت کے بعد ہی کی خبریں نہیں دیں بلکہ اپنی سچائی کے ثبوت کے لیے آغاز وحی کے چند برس بعد پیش آنے والے بعض واقعات کو بھی کھول کر بیان کر دیا۔ مثلاً روم و ایران کی جنگ میں شکست خوردہ رومیوں کی ناقابل یقین فتح کی پیش گوئی۔ یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرآن اپنے دعویٰ میں ایک سچی کتاب ہے۔ یہی وہ ٹائم مشین ہے جس میں بیٹھ کر نہ صرف ہم مستقبل کی سیر کرسکتے ہیں بلکہ اس کے برے نتائج سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ یعنی جہنم سے بچ کر جنت کی تیاری کرسکتے ہیں۔