تو اے مسافر شب ۔ ابویحییٰ
عارف کی نشست میں آج ملکی حالات زیر بحث تھے۔ زیادہ تر لوگ مستقبل سے مایوس اور ملک کے حالات سے پریشان تھے۔ عارف خاموشی سے مختلف لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے۔ عارف کی مجلس میں لوگوں کی اتنی تربیت ہوچکی تھی کہ لوگ بے تکان نہیں بولتے تھے۔ اپنی اپنی بات کرکے خاموش ہوجاتے تھے اور دوسروں کو موقع دیتے تھے۔ چنانچہ جب سب بول چکے تو آخر میں حاضرین نے ان کی طرف دیکھا کہ وہ بھی اپنی رائے دیں۔ وہ لب کشا ہوئے:
”میں آپ لوگوں کے تجزیوں سے اختلاف نہیں کروں گا۔ تاریکی تو چھائی ہے۔ مگر آپ لوگوں کی باتوں میں بھی مایوسی کا اندھیرا ہے۔ تاریکی کو آپ تاریکی سے کیسے دور کرسکتے ہیں؟ روشنی کے سفیر بنیئے……“
بات ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ ایک صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ بول اٹھے:
”حضرت روشنی کہاں سے لائیں؟ یہاں تو ہر سو تاریکی چھائی ہے۔ ہر لیڈر آخرکار ہمیں دھوکا دیتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں؟“
”آپ لوگ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ تاریکی بہت ہے۔ حالات خراب ہیں۔ امید کی کوئی کرن نہیں۔ مگر اندھیرے میں کھڑے ہوکر یہ کہنا کہ اندھیرا ہو رہا ہے، اندھیرے کو دور نہیں کرتا۔ اس کے لیے روشنی چاہیے۔ وہ روشنی خدا نے آپ کے اندر پیدا کی ہے۔ آپ کیوں لیڈروں کے غم میں پریشان ہوتے ہیں۔ اس نے تو آپ کو لیڈر بنایا ہے۔“
ایک حافظ قرآن بھی مجلس میں موجود تھے جو فہم قرآن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے فوراً قرآن مجید کی وہ آیت پڑھ دی جس کا حوالہ عارف نے دیا تھا۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً
ٓ”جی بالکل! اس آیت میں اللہ نے ہمیں نہ صرف یہ بتایا ہے کہ اس نے ہم میں سے ہر شخص کو امام یا لیڈر بنایا ہے بلکہ ساتھ میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہماری لیڈرشپ کا دائرہ کار ہمارا خاندان اور ہمارے بیوی بچے ہیں۔ ہم پر اصل ذمہ داری اسی جگہ کی ہے جہاں ہم لیڈر ہیں۔ اس جگہ روشنی پھیلائیں۔ اس جگہ مثبت اور تعمیر ی سوچ کو فروغ دیں۔“
”تو کیا باقی معاشرے کو چھوڑ دیں؟“، ایک اور صاحب نے سوال کیا۔
ہم پر ذمہ داری ہمارے دائرہ اختیار ہی کی ہے۔ رہا معاشرہ تو یہ ہمارے لیے صرف وہی جگہ ہے جہاں ہم جیتے بستے ہیں۔ یہاں پر اچھی باتوں کی تلقین کریں۔ برائی پر توجہ دلائیں۔ خیر و شر کا شعور زندہ رکھیں۔ حق کی تلقین کریں۔ اس پر ثابت قدمی کی نصیحت کریں۔ اور جو باقی چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہیں ان کو اللہ کے حوالے کر دیں۔ یہی قرآن کی تعلیم ہے۔“
”کیا اس سے معاشرہ سدھر جائے گا؟“، ایک اور صاحب نے دریافت کیا۔
دوسروں کو سدھارنے کی نفسیات سے باہر آجائیں۔ یہ خدا کی دنیا ہے۔ امتحان کے اصول پر بنی ہے۔ یہاں معاملات ایسے ہی چلیں گے۔ خدا کے فرشتے ان لوگوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو اسی برائی اور اسی اندھیرے میں اپنے اندر کی روشنی کو باہر پھیلاتے ہیں۔ جن کے اندر ایمان کا نور زندہ ہے وہ ان حالات سے بے نیاز ہوکر ان نورانی فرشتوں کو دیکھتے ہیں اور اپنے اندر کے چراغ کو جلا کر انھیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے میں جب زیادہ ہوجاتے ہیں تو معاشرہ بھی سدھر جاتا ہے۔ نہ ہوں تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم اندھیری رات کے مسافر ہیں۔ ہماری منزل جنت ہے، دنیا نہیں۔ میری بات یاد نہ رہے تو اقبال کی بات ہی یاد رکھ لیں۔“
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
عارف کی بات ختم ہوگئی۔ لوگوں نے جان لیا کہ ان میں سے ہر شخص ایک مسافر شب ہے جسے اپنی رات کو خود ہی روشن کرنا ہے۔