اہل مذہب کا کٹا ہوا ہاتھ ۔ ابویحییٰ
اہل پاکستان عمومی طور پر مذہب سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ عملی طور پر ان کی زندگیاں اسلام سے کتنا ہی دور ہوں، مگر اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسلام سے گہری وابستگی اس خطے کے لوگوں کے قومی مزاج کا حصہ ہے۔
دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بھی ایک اہم سبب تھا جس کی بنا پر تحریک پاکستان میں مذہب کے نعرہ کو مقبولیت ملی۔ گرچہ یہ بات معلوم ہے کہ مسلمانوں کی جس لیڈرشپ اور اشرافیہ نے اصلاً حصول پاکستان کی جدوجہد کی اور جو ان کے بعد اقتدار کے منصب پر فائز ہوئی، اس کا آج کے مروجہ معنوں میں مذہب سے عملی تعلق نہیں تھا۔ یہ حقیقت نہ صرف اُس دور کے سماجی حالات سے عیاں ہے بلکہ ان سوانح عمریوں سے بھی جھلکتی ہے جو صف اول و دوم کے لوگوں کے حوالے سے لکھی گئیں۔ اس حقیقت کو مزید سمجھنا ہو تو اس تنقید کو پڑھنا چاہیے جو مسلم اشرافیہ اور لیڈرشپ کو مغرب پرست اور ان کی زندگی کو مغربیت کا نمونہ ثابت کرنے کے لیے اُس دور میں اسلام پسند لیڈرشپ نے لکھی۔
اُس دور میں اسلام پسندوں کی طاقت بہت کم، لیکن ان کا اخلاقی اور فکری مقدمہ مضبوط تھا۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ آپ کا فکری اور اخلاقی مقدمہ مضبوط ہو تو وقت کے ساتھ آپ طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہی پاکستان میں ہوا۔ ابتدائی تین عشروں کے بعد صورتحال بدلنا شروع ہوئی۔ مغرب پسندی یا لبرل سوچ کو شکست ہونا شروع ہوئی۔ پھر بعض ملکی اور بین الاقوامی حالات نے ستر کی دہائی کے آخر میں صورتحال کو ایک دم سے اہل مذہب کے حق میں تبدیل کر دیا۔ بظاہر یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ مگر دراصل یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ اس نازک امتحان کو بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر مولانا ابو الحسن علی ندوی نے محسوس کرتے ہوئے پاکستان کے اسلام پسندوں کو بتا دیا تھا کہ آپ کے ترکش میں ایک ہی تیر ہے۔ اسے چلانے کا وقت آگیا ہے۔ اگر نشانہ خطا ہوگیا تو پھر آپ کے پاس چلانے کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا۔
ان کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قبل آپ دوسروں پر تنقید کر کے اور نفاذ اسلام کے ساتھ ہی فلاح و برکات کے ظہور کے جو دعوے کرچکے ہیں، وہ کسی بھی وجہ سے ظاہر نہیں ہوئے تو لوگوں کا اسلام پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ بدقسمتی سے مولانا کا اندیشہ سو فی صد درست ثابت ہوا۔ تاہم بات صرف اتنی ہی رہتی تو صورتحال کو سنبھالا جاسکتا تھا۔ یہ کہا جاسکتا تھا اور کہا گیا کہ نفاذ اسلام کے عمل میں اخلاص نہ تھا، طریقہ کار درست نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ اسی اور نوے کی دہائی میں یہی عذر پیش کیے جاتے رہے۔ اس کے بعد اسلام پسندی کے بطن سے انتہا پسندی، فرقہ وارانہ قتل و غارتگری اور دہشت گردوں کا ناسور برآمد ہوا۔ اس کی بھی کسی نہ کسی طرح تاویل کر لی جاتی، مگر اہل مذہب کے وہ گروہ جو اصلاً مغرب پسند لبرل سوچ کے خلاف پیش پیش تھے، انھوں نے اس موقع پر انتہائی بھیانک غلطی کا ارتکاب کیا۔
ان اسلام پسندوں نے بظاہر دہشت گردی کی مذمت کی، مگر ہر ہر پہلو سے اور ہر ہر فورم پر عملاً دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بھرپور تائید کی۔ یہ کرنے کے بعد اہل مذہب نے اپنی اصل طاقت یعنی فکری اور اخلاقی برتری کو کھو دیا۔ جس کے ساتھ ہی پاکستان میں لبرل اور سیکولر نقطہ نظر رکھنے والوں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ اس نقطہ نظر کو مزید طاقت ان مقبول عام دانشوروں نے عطا کر دی جو نظری طور پر لبرل تو نہیں مگر عملی طور پر وہ پاکستان کو طالبان کے افغانستان کے مقابلے میں طیب اردگان کے ترکی جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو فکری معرکہ بظاہر اسی کی دہائی میں ختم ہوگیا تھا وہ ایک دفعہ پھر شروع ہوچکا ہے۔ اس معرکے میں اہل مذہب فکری طور پر تو کمزور ہو ہی چکے ہیں کہ اب ان کے پاس مولانا مودودی کا قلم ہے نہ امین احسن اصلاحی کا علم، ابو الحسن علی ندوی کی فکر ہے نہ شبیر احمد عثمانی کا پس منظر۔ کسی فکری معرکے میں جذباتی لکھاری اور انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے مقررین کی حیثیت ٹینکوں کے مقابلے میں تلواروں سے لڑنے والوں کی ہوتی ہے۔ وہ لاکھوں کی تعداد میں ہوں، تب بھی ٹینکوں کا سامنا نہیں کرسکتے۔
تاہم اس فکری کمزوری سے کہیں بڑھ کر سانحہ اہل مذہب کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ اخلاقی طور پر ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہو رہے ہیں۔ ہر دفعہ جب اس ملک میں یا دنیا بھر میں کہیں ان ہی کی فکر رکھنے والے گروہ کوئی خود کش حملہ کرتے ہیں۔ یا پھر توہین رسالت کے شبہہ میں کسی کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ یا فرقہ وارانہ قتل کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے یا اقلیتی گروہ کے کسی فرد یا بستی کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر جیسا کہ اب نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ پندرہ برس کا نوجوان اپنی ہی نادانستہ توہین رسالت کے جرم میں اپنا ہی ہاتھ کاٹ لیتا ہے؛ ہر ایسے واقعے کے ساتھ اہل مذہب کا اخلاقی مقدمہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
قوموں کی زندگی میں جب بھی فکری معرکے برپا ہوتے ہیں تو ان کے نتائج برسوں میں نہیں عشروں میں نکلتے ہیں۔ اگر حالات کا دھارا اسی سمت میں بہتا رہے گا، اہل مذہب اپنی نمائندگی کے لیے انتہا پسند اور جذباتی لوگوں کا ہی انتخا ب کریں گے۔ اگر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات ایسے ہی رونما ہوتے رہیں گے اور اہل مذہب اسلام کے نام پر اس انتہا پسندی کے خلاف اعلان جنگ نہیں کریں گے تو یہ طے ہے کہ آنے والے عشروں میں پاکستان میں لبرل سیکولر سوچ کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہوگا جتنا آج تصور کیا جاسکتا ہے۔
اسلام پسند شاید اس حقیقت سے نادانستہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں کہ بیس کروڑ کے اس ملک میں وہ آج کے دن تک ایک اقلیت ہیں۔ مذہب کی محبت اپنی جگہ، اہل پاکستان بہرحال انتہا پسند نہیں ہیں۔ مغربی تہذیب ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہر گھر میں داخل ہو کر مغربی لبرل سوچ کا دروازہ کھول رہی ہے۔ لوگ فکری اور عملی اثرات قبول کر رہے ہیں۔ موجودہ نسل میں ان اثرات کو پوری طرح نہیں دیکھا جاسکتا، یہ اگلی نسل ہی ہوگی جو بالکل ایک مختلف منظر پیش کرے گی۔ پاکستان اگلے عشروں میں وہ نہیں رہے گا جو ماضی میں تھا یا جو اب ہے۔ تاہم یہ پاکستان کیسا ہوگا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آج مذہبی لوگ اپنی رہنمائی کے لیے کس قسم کی صدا کو قبول کرتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ مروجہ مذہبی سوچ اس نوجوان کی طرح اپنے ہاتھ کٹوا چکی ہے۔ اہل مذہب اپنے کٹے ہوئے ہاتھ سے اس دروازے کو بند نہیں کرسکتے جو مغربی تہذہب ہمارے ہر گھر میں آنے والے برسوں میں کھولنے جا رہی ہے۔