فرض آشنائی ۔ ابویحییٰ
ہمارے دین میں نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے اوقات، ایام، اذکار اور اعمال مقرر کیے گئے ہیں۔ جیسے نماز دن میں پانچ اوقات میں متعین رکعات کے ساتھ ادا کرنا ہوتی ہے۔ سال میں رمضان کے ایک ماہ کے روزے رکھنے ہوتے ہیں وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ان عبادت کو فرد کی صوابدید پر کیوں نہیں چھوڑا گیا اورکیوں ایک خاص تعداد اور ایام مقرر کیے گئے ہیں؟
اس بات کی حکمتیں تو بلاشبہ بے شمار ہیں لیکن ایک بنیادی حکمت یہ ہے کہ عبادات نفس انسانی کی تربیت کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ انسانی نفس کو اگر کسی قواعد و ضوابط قاعدے کی عادت نہ ڈالی جائے تو وہ بے لگام ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ عقل اور فطرت کے ہر تقاضے اور فرد و معاشرے کی فلاح کے ہر پہلو کو نظر انداز کرکے اپنی خواہش اور جذبات کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے۔ اس رویے کی اگر اجازت دے دی جائے تو معاشرہ درہم برہم ہوجائے گا۔
یہ عبادات ہیں جو انسان کو نفس کی خواہش کے خلاف کام کرنے کا عادی بناتی اور زندگی ایک قاعدے قانون میں ڈھالنے کی تربیت دیتی ہیں۔ مثلاً فجر کی نماز صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈلواتی ہے۔ فجر میں میٹھی نیند کی قربانی دے کر انسان نسیم صبح کی اس تازگی کو جسم و جاں کا حصہ بناتا ہے جو کہیں نہیں مل سکتی۔ دیگر نمازوں میں وقت کی پابندی اور رکعتوں کا تعین انسان کو عادی بناتا ہے کہ وہ اپنی قوت ارادی کو اتنا مضبوط بنالے کہ وہ زندگی کی ہر مصروفیت ، دلچسپی اور آرام کو چھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا خوگر بنے۔
یہی وہ فرض آشنائی ہے جو ایک دفعہ انسان میں پیدا ہوجائے تو وہ اپنی ذات، خاندان اور معاشرے کے حوالے سے پیدا ہونے والی ہر اخلاقی ذمہ داری کو احسن طریقے پر نبھاتا ہے۔ اس بات کا شعور معاشرے میں عام ہو وہاں خیر و برکت کے پھول ہی کھلا کرتے ہیں۔