علم شیطان کا ایک ہتھیار . ڈاکٹر محمد عقیل
’’حضرت! میں بہت زیادہ علم حاصل کرنا چاہتا ہوں، بہت زیادہ‘‘میں نے کہا۔
’’تو حاصل کر لو، کس نے روکا ہے؟‘‘ حضرت نے جواب دیا۔
’’جناب مسئلہ یہ ہے کہ علم بعض اوقات تکبر پیدا کرتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہیں وہی سب کچھ نہ ہو جو شیطان کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنے علم کے زعم میں خدا کے سامنے کھڑا ہوگیا؟‘‘
’’ہممم۔۔۔۔۔ اس کے دو طریقے ہیں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’پہلا یہ کہ جو کچھ علم حاصل کرو، اس کی تمام اچھائیوں کو من جانب اللہ سمجھو۔ ہر اچھی کوٹ، آرٹیکل یا کتاب لکھو تو اس کے اچھے پہلوؤں کو من جانب اللہ سمجھو۔ اس کا سارا کریڈٹ خدا کے اکاؤنٹ میں ڈال دو۔ اس سے ملنے والی تعریفوں پر یوں سمجھو کہ لوگ تمہاری نہیں بلکہ اس خدا کی توفیق کی تعریف کر رہے ہیں جو اس نے تمہیں عطا کی۔‘‘
’’بہت عمدہ بات کہی آپ نے حضرت، دوسری ہدایت کیا ہے؟‘‘
’’دوسری ہدایت یہ کہ جب کسی کو علم سکھاؤ تو استاد نہیں طالب علم بن کر سکھاؤ۔ اس کو سمجھانے کی بجائے اس سے طالب علم بن کر سوال کرو۔ اس کے سوالوں کے جواب ایک طالب علم کی حیثیت سے دو۔ اپنی کم علمی اور غلطیوں کا کھل کر اعتراف کرو۔ اس طرح تم خود کو عالم نہیں طالب علم سمجھو گے اور تکبر پیدا نہیں ہوگا۔
’’بہت شکریہ حضرت! آپ نے بہت اچھے طریقے سے بات کو سمجھایا۔‘‘
’’یاد رکھو! علم وہ ہتھیار ہے جس کا غلط استعمال خود کو ہی ہلاک کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ شیطان سب سے آسانی سے عالموں ہی کو پھانستا ہے۔ پہلے اسے یہ یقین دلاتا ہے تم تو عالم ہو، تمہیں سب پتا ہے۔ جب سب پتا ہے تو یہ کل کے بچے تمہارے سامنے کیا بیچتے ہیں؟ اس کے بعد لوگوں کو حقیر دکھاتا ہے۔ لوگوں کے لائیکس اور واہ واہ کو استعمال کر کے انسان میں تکبر، غرور اور انا کو مضبوط کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان خود کو عقل کل سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اپنی اور دنیا والوں کی نظر میں عالم اور متقی نظر آتا ہے، لیکن خدا کی کتاب میں اسے ’’ابوجہل‘‘ لکھ دیا جاتا ہے اور فرشتوں کی محفل میں اسے شیطان کا ساتھی گردانا جاتا ہے اور اسے خبر تک نہیں ہوتی۔‘‘