Take a fresh look at your lifestyle.

ایک واقعہ، ایک سبق ۔ خورشید ندیم

توقعات باندھتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم بھی دوسروں کی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔

یہ چند دن پہلے کا واقعہ ہے۔ شہر میں سفر کرتے وقت گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے گاڑی اور مسافروں کو محفوظ رکھا۔ ٹائر نیا تھا اور سڑک بھی اچھی حالت میں تھی۔ یہ ایک انہونی تھی۔ بہرحال‘ خدا کا شکر ادا کیا کہ بڑا حادثہ نہیں ہوا۔ ڈرائیور نے ٹائر بدلنے کیلئے پانا گھمایا تو وہ بھی ٹوٹ گیا۔ کوئی چارہ نہ رہا‘ اس کے سوا کہ دوسرے پانے کا بندوبست کیا جائے۔ قریب میں کوئی دکان نہیں تھی جہاں سے یہ ضرورت پوری ہوتی۔ ڈرائیور سڑک پر کھڑا‘ آتی گاڑیوں کو متوجہ کرنے کیلئے ہاتھ ہلانے لگا۔ دیر تک کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ لوگوں کے رویے پر سخت افسوس ہوا کہ دوسرے کو مشکل میں دیکھ کر مدد کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ کیسی بے حسی ہے یہ۔ مایوسی بڑھنے لگی تو ایک گاڑی قریب آکر رکی۔ ڈرائیور اترا‘ اس نے اپنی گاڑی کا پانا نکالا اور میرے ڈرائیور کے ساتھ مل کر ٹائر بدلنے لگا۔ میں ایک طرف کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ بہت مختصر وقت میں ٹائر تبدیل ہوگیا۔ میں نے اس مددگار کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے خفیف انداز میں سر کو ہلایا اور روانہ ہوگیا۔ ہم بھی چل پڑے۔

گاڑی میں بیٹھا تو ڈرائیور نے جو بتایا وہ اس کالم کے لکھنے کیلئے مہمیز بنا۔ وہ ڈرائیور میرے ڈرائیور کے اشارے پر رکا مگر اپنی رفتار کے باعث رکتے رکتے قدرے آگے نکل گیا۔ ٹریفک چونکہ یکطرفہ تھی‘ اس لیے واپس نہیں آسکتا تھا۔ آنے والے یوٹرن سے اس نے گاڑی موڑی۔ اچھا خاصا فاصلہ طے کر کے‘ وہ ایک بار پھر واپس آیا اور ہماری مدد کی۔ میں یہ سُن کر بہت متاثر ہوا مگر ساتھ ہی ایک سوال نے اچانک آواز دی: اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا؟ رک جاتا؟ کیا اسی طرح آگے جا کر پھر واپس آتا؟ دل کے نہاں خانے سے جو جواب ابھرا، اس نے مجھے اپنی ہی نظروں میں شرمندہ کر دیا۔

دوسروں کے بارے میں ہم اسی وقت کوئی درست رائے قائم کرسکتے ہیں جب خود کو ان کی جگہ رکھ کر دیکھتے ہیں۔ ہم جب بھی معاشرتی رویوں پر کوئی تبصرہ کرتے ہیں تو خود کو مستثنیٰ کر دیتے ہیں۔ ہم عدم انصاف کی شکایت کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اپنے دائرے میں ہم کتنا انصاف کرتے ہیں۔ جب ہم اپنی بیٹی کے سسرال سے توقع رکھتے ہیں کہ ہماری بیٹی کا خیال رکھے تو اس وقت ہمیں یاد نہیں رہتا کہ ہمارے گھر جو بیٹی آئی ہے ہم اس کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ زندگی میں شکایت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب توقع پوری نہیں ہوتی۔ اگر ہم اپنی سوچ کا زاویہ بدل لیں تو شکایت ختم ہوجائے گی۔

مطالبے کی نفسیات بھی اسی زاویۂ نظر سے پیدا ہوتی ہے۔ حکومت سے مطالبہ، ہمسائے سے مطالبہ، سب سے مطالبہ۔ مطالبے کا یہ کلچر مغرب سے آیا ہے۔ مسلم تہذیبی روایت میں خود احتسابی ہے۔ یہ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اندر کی طرف دیکھنے کی دعوت ہے۔ اس تہذیب میں دوسروں کے ساتھ معاملہ خیر خواہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ مطالبے کا انجام نفرت ہے۔ خیر خواہی کا ہمدردی اور محبت۔ یہ تہذیب سکھاتی ہے کہ سماج میں کچھ لوگ ہوں جو نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ وہ ان لوگوں کو انذار کریں جو دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ سماج اپنی قدروں کے بارے میں حساس رہے اور ایسے کردار جڑ نہ پکڑنے پائیں جو انہیں پامال کرتے ہوں۔

اگر ہم تمام تر توجہ اس پر دیں کہ دوسروں کی توقعات پر پورا اتریں تو اس سے سماجی ماحول بدل جائے۔ سیاست میں زیادہ تلخی اس وقت در آئی جب حکمران طبقے اور عوام میں تصادم کی فضا پیدا کی گئی۔ یہ مطالبے کی نفسیات سے اٹھی اور پھر اس شکایت نے جنم لیا جو توقعات کے پورا نہ ہونے سے پیدا ہوئی۔ ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں اس پر تحریکیں اٹھاتی ہیں کہ حکومت عوامی مطالبات پورے نہیں کرتی۔ وہ یہ تحریک نہیں اٹھاتیں کہ عوام ٹیکس پورا دیں۔ وہ تاجروں کے مطالبات کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہیں مگر ان سے یہ نہیں کہتیں کہ وہ ٹیکس پورا ادا کریں۔ سیاست میں مطالبے سے شہرت اور حمایت ملتی ہے۔ خود احتسابی کی دعوت غیر مقبول بناتی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والےواقعات پر اگر ہم غور کریں تو یہ ہمیں بڑی حقیقتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہر آدمی کی زندگی میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن پر اگر وہ تدبر کرے تو بہت سے غلط خیالات سے چھٹکارا پا لے۔ اس سے اس کی زندگی آسان ہوجائے۔ وہ رازِ حیات کو پا لے۔ اس کے لیے ایسے لٹریچر کا مطالعہ مفید ہوسکتا ہے جو اسی مقصد کے لیے لکھا گیا۔ مولانا وحید الدین خاں کو تو اس معاملے میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ ان کی مقبول ترین کتاب رازِ حیات بطورِ خاص اہم ہے۔ وہ ہمیں ایسے واقعات کی طرف متوجہ کرتے ہیں جن کا ہمیں آئے دن سامنا ہوتا ہے مگر ہم اس سے کچھ سیکھے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شاید پیشہ ور موٹیویشنل سپیکرز یا لکھاری زیادہ مفید نہ ہوں۔ وہ بالعموم خواہشوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں جس لٹریچر کی بات کر رہا ہوں وہ اسی قلم اور زبان سے نکل سکتا ہے جو برسوں کے غور و فکر اور مطالعے کے بعد چلتی ہے۔

جب کوئی بات ہمارے مشاہدے یا تجربے کا حصہ بنتی ہے تو اس میں چھپی دانائی کو تلاش کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ اس بات سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے جو دوسروں کے تجربے کے طور پر ہمارے علم میں آتی ہے۔ میں نے جس واقعے کا ذکر کیا ہے‘ وہ میرا شخصی تجربہ ہے جس نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس نے مجھے خود احتسابی کی دعوت دی ہے۔ ہم بدقسمتی سے اس روایت سے اتنا دور نکل چکے ہیں کہ اب کوئی اس طرف متوجہ کرے تو ہم اس کا نام ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں لکھ دیتے ہیں۔ ہمیں وہ اچھا لگتا ہے جو مطالبہ سکھاتا اور ہمیں دوسروں کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔

ہم ترقی کے معاملے میں جاپان کی مثال دیتے ہیں۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں خودکشی کی شرح غالباً سب سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود احتسابی کا غیر معمولی احساس ہے۔ ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ فلاں موقع پر اگر وہ یہ غلطی نہ کرتا تو دوسرا نقصان سے بچ سکتا تھا‘ قطع نظر اس کے کہ وہ غلطی غیر دانستہ تھی یا دانستہ۔ اگر ایک دکاندار نے لاعلمی میں کھانے پینے کی کوئی چیز بیچی جس نے دوسرے کو بیمار کر دیا‘ یہ غلطی اسے بے چین رکھتی ہے۔ وہ اس بے چینی سے نجات چاہتا ہے اور اس کے لیے خودکشی کرلیتا ہے۔

خودکشی تو دور کی بات ہم دوسروں کو کامیاب دھوکا دے کر خوش ہوتے ہیں۔ احساسِ جرم ہمارے قریب نہیں پھٹکتا۔ ہم دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں اور یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ کوئی ہمیں دھوکا نہ دے۔ سادہ بات یہ ہے کہ ہم معاشرے سے جس برائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لازم ہے کہ اپنا دامن اس سے آلودہ نہ ہو نے دیں۔ ہم خود جو کام کرنے پر آمادہ نہیں، دوسروں سے اس کی توقع نہ رکھیں۔ اگر ہم کسی خراب گاڑی کو دیکھ کر گاڑی نہیں روکتے تو ہمیں دوسروں سے بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ہماری خراب گاڑی کو دیکھ کر رک جائے گا۔ خدا اس ڈرائیور پر کرم کرے جس نے مشکل میں ہماری مدد کی اور مجھے بھی تو فیق دے کہ میں اس کی طرح دوسروں کے کام آسکوں۔