ایک واقعہ ۔ مولانا وحید الدین خان
ایک روز انڈیا کے ایک شہر سے میرے پاس ٹیلی فون آیا۔ ایک مسلم خاتون ٹیلی فون پر بول رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ میری بہن اور ان کے شوہر کے درمیان شادی کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے جو حل نہ ہوسکے۔ اب آخری طور پر یہ طے کیا گیا ہے کہ دونوں کے درمیان طلاق کرا دی جائے۔ آج شام کو طلاق نامے پر دستخط ہونے والے ہیں۔ آپ دعا کیجئے کہ طلاق کے بعد میری بہن کی زندگی خوشگوار رہے۔
میں نے کہا کہ آپ اپنی بہن سے کہیے کہ وہ مجھ سے بات کریں۔ اس کے بعد ان کی بہن سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے شوہر کے درمیان کیا اختلافات ہیں۔ انھوں نے کچھ باتیں بتائیں۔ میں نے کہا کہ آپ جو کچھ بتا رہی ہیں، وہ کوئی اہم بات نہیں۔ وہ اختلافات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کی بڑہی ہوئی حساسیت کا مسئلہ ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ غیر ضروری طور پر حساس ہوگئی ہیں۔ آپ اپنی حساسیت پر کنٹرول کیجئے۔ آپ یہ ذہن ختم کر دیجئے کہ………… ”میں ہی کیوں ان کی بات مانوں، ان کو بھی میری بات ماننا چاہیے۔“
میں نے کچھ واقعات بتاتے ہوئے ان سے کہا کہ زندگی دو طرفہ (bilateral) بنیاد پر نہیں چلتی، بلکہ زندگی ہمیشہ یک طرفہ (unilateral) بنیاد پر چلتی ہے۔ آپ اس معاملے میں کوئی استثنا نہیں ہیں۔ اسی اصول کو قرآن میں قوامیت (النساء 34:4) سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی جس طرح ہر کمپنی میں اور اجتماعی ادارے میں ایک ناظم یا باس (boss) ہوتا ہے اسی طرح گھر کے اندر بھی ایک فرد کو ناظم، یا باس کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک فطری اصول ہے۔ اس کا تعلق صنفی برابری یا صنفی نابرابری سے نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گھر کے اندر نظم قائم نہ ہوسکے گا۔ اور نظم کے بغیر کسی ادارے میں ترقی ممکن نہیں۔
مزکورہ خاتون نے میری بات مان لی اور باہم مل کر رہنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے طلاق کے مطالبے کو واپس لیتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ میں آپ کو اپنا باس مانتی ہوں اور کسی شرط کے بغیر آپ کے ساتھ رہنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کا نتیجہ مثبت شکل میں نکلا۔ اب دونوں اپنے گھر میں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔