عید الاضحی اور حج ۔ ابویحییٰ
حج اہم ترین عبادت ہے۔ یہ اللہ کے دشمن شیطان کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ خیر و شر کی کشمکش میں ہم غیر جانبدار نہیں بلکہ خیر کے ساتھ ہیں۔ ہم شر کو ہر قدم پر سنگسار کرتے رہیں گے اور اس راہ میں اپنی انا، تعصبات، خواہشات، اپنے مال اور یہاں تک کہ اپنی جان کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم حج اتنی مشکل اور کٹھن عبادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی میں ایک ہی دفعہ فرض کیا ہے۔ پھر بھی بہت سے لوگ اس کے اسباب نہیں جمع کرپاتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا ہے کہ خوشیوں بھرے عید الاضحیٰ کے تہوار کو حج کی اس عظیم عبادت سے متعلق کر دیا۔ پھر اس تہوار میں حج کی نمائندہ ترین عبادات شامل کر دیں۔ تہوار چونکہ ہر شخص مناتا ہے اس لیے عملی طور پر تہوار کے ذریعے سے پوری امت حج میں شریک ہوجاتی ہے۔
عید الاضحیٰ پر تین عبادات خصوصی طور پر ادا کی جاتی ہیں۔ یہ تینوں حج کے تعلق سے اس موقع پر ادا کی جاتی ہیں۔ پہلی دو رکعت عید الاضحیٰ اور اس کا خطبہ۔ یہ خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کی نشانی ہے جو اب ہر برس عرفات کی مسجد نمرہ میں امام حج دیتا ہے۔ پھر دو دو رکعت نماز ظہر وعصر ادا کی جاتی ہے۔ اس مناسبت سے دو رکعت عید الاضحیٰ ادا کی جاتی ہے۔
قربانی حج کا منتہائے کمال ہے جو اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ شیطان کے خلاف جنگ میں جان بھی دینی پڑے تو حاضر ہے۔ یہی قربانی عید میں شامل کر دی گئی۔ آخری چیز تکبیرات ہیں جو نویں کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ادا کی جاتی ہیں۔ یہ اس ذکر کی یاد دہانی ہے جس کی تلقین قیام منیٰ میں حجاج کو کی گئی ہے۔ جس شخص کو حج اور عید کے اس تعلق کی سمجھ آجائے وہ عید کے ایام میں ذہنی طور پر حج کی حالت ہی میں رہتا ہے اور اللہ کی خصوصی رحمت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔