عید کی چُھٹی ۔ ابویحییٰ
پرانے زمانے میں دستور تھا کہ بچے اساتذہ کے گھروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جایا کرتے تھے اور اساتذہ انھیں ان کا سبق یاد کراتے تھے۔ جن بچوں کو سبق یاد ہوتا انھیں چھٹی مل جاتی اور جنھیں یاد نہیں ہوتا تھا ان کی چھٹی بند ہوجایا کرتی تھی۔ اسی سے متأثر ہوکر شاعر نے کہا تھا:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا
یہ بات مکتب عشق کے بارے میں ٹھیک ہو یا نہ ہو اس مکتب کے بارے میں ضرور صحیح ہے جو روزے کی شکل میں مسلمانوں کے لیے ہر سال رمضان میں لگایا جاتا ہے۔ ماہ رمضان میں لوگوں کو روزہ کی سخت مشقت میں ڈال کر یہ سبق دیا جاتا ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی صلاحیت ہے۔ چاہے انھیں شدید گرمیوں میں پیاس کی اذیت اٹھانی پڑے یا موسم گرما کے طویل روزوں میں بھوک کی اذیت سہنی پڑے، وہ یہ صلاحیت اور قدرت رکھتے ہیں کہ رب کے لیے یہ سب جھیل لیں۔ اکثر لوگ یہ سب کچھ ایک ماہ تک کرتے رہتے ہیں، مگر افسوس کہ وہ اصل سبق یاد نہیں کرتے۔ چنانچہ جیسے ہی روزے ختم ہوتے ہیں، ان کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ وہ نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ فواحش پر دلیر ہو جاتے ہیں۔ انفاق بھول جاتے ہیں، وغیرہ۔
مگر جو شخص روزے کا اصل سبق یعنی ہر طرح کے حالات میں اطاعت سیکھ لیتا ہے، روزہ کی درسگاہ ختم ہونے کے بعد بھی اس کو چھٹی نہیں ملتی۔ وہ روزے کے بعد بھی اطاعت پر قائم رہتا ہے۔ وہ ہر گناہ سے بچتا اور ہر نیکی کی طرف دوڑتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کے رب کا حکم ہوتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں کو کبھی چھٹی نہیں ملے گی۔ عنقریب جنت میں ان کو ہر پابندی سے مکمل چھٹی مل جائے گی۔ عید کا دن اسی چھٹی کی علامت ہے۔