درخت لگانے کا بہترین موقع ۔ ابویحییٰ
ایک چینی کہاوت اس طرح سے ہے کہ درخت لگانے کا بہترین موقع بیس سال قبل تھا، دوسرا بہترین موقع آج ہے۔ درحقیقت یہ ایک انتہائی حکیمانہ قول ہے۔ اس میں زندگی کی دو عظیم ترین حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ حساس ہوتے ہیں۔
پہلی حقیقت کا تعلق تعمیری کام سے ہے۔ اس کہاوت میں درخت لگانے کا عمل دراصل تعمیری کام کا استعارہ ہے۔ درخت لگانے سے مراد کوئی بھی تعمیری عمل ہے۔ ایک درخت اپنے آغاز پر ایک چھوٹا سا پودا ہوتا ہے۔ اس وقت اس پودے کو ہر طرح کی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نگہداشت کے اس طویل عرصے میں نہ پھل ملتا ہے نہ سایہ، نہ لکڑی ملتی ہے نہ پھول۔ لیکن جب نگہداشت کا یہ وقت گزر جاتا ہے اور آخرکار پودا درخت بن جاتا ہے تو پھر وہ ہر طرح کی پیداوار دینے لگتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ہر تعمیری کام کا ہے۔ شروع میں یہ تعمیری کام یک طرفہ طور پر محنت، مشقت، صبر اور نگہداشت چاہتا ہے۔ اس دوران میں مطلوبہ نتائج کم ہی سامنے آتے ہیں۔ لیکن جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو پھر ہر طرح کے مثبت نتائج سامنے آنے لگتے ہیں۔
بچوں کی پرورش سے لے کر گھر بنانے تک اس تعمیری عمل کی مثالیں روزمرہ زندگی میں ہر جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ مگر ہم لوگ فرد اور قوم کی مجموعی تعمیر و ترقی کے معاملے میں اس معاملے کو اکثر بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ایک دم نیک بن جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس اچانک بہت سارے پیسے آجائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ایک ہی جست میں اس دنیا کی غالب قوم بن جائے۔ ہماری خوش گمانیوں کی یہی وہ مثالیں ہیں جن کی نفی یہ کہاوت کرتی ہے۔
یہ کہاوت بتاتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی اور اپنے بچے کی کردار سازی کرنی ہے تو اس کے لیے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنا ہوگی۔ اگر ہمیں اپنے معاشی معاملات کو بہتر کرنا ہے تو اس کے لیے کوشش، جدوجہد، منصوبہ مندی اور مواقع کے انتظار کے صبر آزما مراحل سے گزرنا ہوگا۔ ہم اگر اپنی قوم کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی عظیم لیڈر کا انتظار بند کرنا ہوگا جو اچانک آسمان سے اترے یا زمین سے کہیں نمودار ہوکر ایک دم سے چیزیں ٹھیک کر دے۔ اس کے لیے ہمیں برسہا برس کی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے مجموعی قومی مزاج کو درست کرنا ہوگا۔
دنیا پر حکومت کرنے والا مغرب اس مقام پر صدیوں میں پہنچا ہے۔ مغرب کے ورثے کو اپنا کر چینی اقوام کو بھی اس مقام پر پہنچنے میں کم از کم ایک نسل یا بیس برس کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ دو چار سال میں قوموں کی زندگی میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ وہ بات ہے جو ہماری قوم کو سمجھنا چاہیے۔
دوسری بات اس کہاوت میں یہ کہی گئی ہے کہ اگر بیس برس پہلے آپ نے اپنی انفرادی و اجتماعی تعمیر کا آغاز نہیں کیا تو مایوس نہ ہوں۔ بلکہ جان لیں کہ آج بھی اس کام کا بہترین موقع موجود ہے۔ آپ آج سے کوشش شروع کر دیں۔ اگلے بیس سال بعد آپ مطلوبہ نتائج پالیں گے۔ لیکن اس کے برعکس رویہ اختیار کیا گیا تو پھر مایوسی اور بے عملی کے بیس برس بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آج کھڑے ہوئے ہیں۔
اس کی ایک سادہ ترین مثال ہمارے ہاں جمہوریت کی نفی ہے۔ ہم نے ہر دس برس بعد جمہوریت سے مایوس ہوکر آمریت کو خوش آمدید کہا۔ حالانکہ ہم تیس چالیس سال تک جمہوریت کو مسلسل کام کرنے دیتے تو آج پاکستان میں بڑے مستحکم ادارے، مضبوط روایات اور اصول پسند لیڈروں کی ایک طویل قطار موجود ہوتی۔ تاہم ہم نے آج تک یہ نہیں کیا تو ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہم صبر کے ساتھ سسٹم کے پودے کو پانی دیتے رہیں۔ کانٹ چھانٹ کر کے اس کی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کریں تو بیس سال بعد یہی سسٹم ہمیں بہترین لیڈر دے دے گا۔