دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا ۔ ابویحییٰ
عصرِ حاضر میں میڈیا کی ترقی نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ اس انقلاب کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جاسکتا ہے، اور نہ ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ جس چیز کی، میڈیا کے اس دور میں اشد ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ صفحۂ دل کو اس غلاظت سے محفوظ رکھنے کی سعی کی جائے جو نگاہوں کے رستے انسان کے اندرون تک رسائی پالیتی ہے۔
کمپیوٹر اور ٹی وی اسکرین سے رنگ و آہنگ اور ساز و آواز کی جو یلغار دل و وماغ پر ہوتی ہے وہ حیران کن حد تک موثر ہے۔ اس سے قبل کہ ایک فرد یہ جان سکے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ لطف و سرور کا متلاشی ٹی وی، ڈش اور کیبل کے چینل اور انٹرنیٹ کی وادیوں میں آوارہ پھرتے پھرتے اپنے باطن کی پاکیزگی کھو دیتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ کس متاعِبے بہا سے وہ ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ انسان کے وجود میں نگاہ قلب کا دروازہ ہوتی ہے۔ ہر آنے والا اسی راستے سے نہاں خانۂ دل کا مہماں ہوتا ہے۔ یہ دروازہ اگر ہر کس و ناکس کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے تو گو آنکھ روشن رہے مگر پاکیزگی قلب کی روشنی سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔ دو ہزار سال قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نگاہ کی اس غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر ارشاد فرمایا تھا۔
’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے کسی بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا‘‘۔ (متی باب ۵ آیت ۲۷،۲۸)
آج عیسیٰ کے نام لیواؤں نے نگاہ کی آلودگی کے وہ اسباب مہیا کر دیے ہیں جس کے بعد دل و نظر کا سفینہ بچا لے جانا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ پناہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو نگاہ کے دروازے پر خدا خوفی کی تلوار لے کر بیٹھ جائے۔ جو ایسا نہ کرے گا وہ اس دوشیزہ کی طرح پچھتائے گا جو زمانے کی ہوا سے بے پرواہ ہوکر شہر کی رونق دیکھنے نکلی۔ مگر رات گئے جب گھر لوٹی تو اپنے وجود کی سب سے قیمتی شے۔ اپنی عصمت۔ گنوا بیٹھی تھی۔