معاشرتی برائیاں اور ہمارا رویہّ ۔ ابویحییٰ
مجھے ٹیلیوژن پر انٹرویو کے لیے براہِ راست (Live) اور ریکارڈ شدہ دونوں قسم کے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ براہِ راست پروگراموں کے برعکس ریکارڈ شدہ پروگرام کو کبھی وقت پر شروع ہوتے میں نے نہیں دیکھا۔ بالخصوص پہلی دفعہ جب مجھے اس کا اندازہ نہ تھا تو بڑی کوفت اٹھانی پڑی۔ میں دیے ہوئے وقت پر جب اسٹوڈیو پہنچا تو معلوم ہوا کہ پروگرام کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، میزبان اور تکنیکی عملہ سب غائب ہیں۔ بعد میں پروگرام کے پروڈیوسر نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہر مہمان دیے ہوئے وقت کے دو گھنٹے بعد آتا ہے۔ آپ چونکہ ’بدقسمتی‘ سے وقت پر آگئے اس لیے آپ کو زحمت ہوئی۔
پروڈیوسر صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ غلط نہ تھا۔ یہ ہماری سوسائٹی کا عام رویہ ہے کہ اجتماعی تقریب اور معاملات میں جو وقت دیا جاتا ہے اس کی پابندی کرنے والا بیوقوف بن کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً کسی شادی کارڈ کو پڑھیے۔ اس پر تقریب کا وقت نو بجے لکھا ہوگا مگر مقامِ تقریب پر جاکر دیکھ لیجیے۔ دس بجے تک میزبانوں، گیارہ بجے تک مہمانوں اور بارہ بجے تک نکاح کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔ انفرادی معاملات میں بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔ ہم ملاقات کا ایک وقت طے کرتے ہیں اور بلاعذر اس سے گھنٹہ یا نصف آگے پیچھے کرنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہم ایک کام کو جس وقت پر کرکے دینے کا وعدہ کرتے ہیں کبھی اسے پورا کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
ہمارا یہ رویہ بلاشبہ ہمارے اخلاقی زوال کی ایک کھلی نشانی ہے۔ اس زوال کا سبب یہ ہے کہ جب کبھی ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ہمیشہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ اپنی ذات کو ہم کبھی اس اصلاح کا نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی بدعملیوں کی دسیوں توجیہات ہماری زبان کی نوک پر رکھی رہتی ہیں۔
مثلاً کچھ عرصے قبل میں نے ایک معاشرتی مسئلے ’قطار نہ بنانے‘ پر ایک مضمون لکھا۔ اس میں نماز کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا تھا کہ منظم طریقے پر باجماعت نماز پڑھنے والوں کو قطار کی زیادہ پابندی کرنی چاہیے۔ جبکہ اس کے برعکس اہل مغرب اس معاملے میں زیادہ باشعور ثابت ہوتے ہیں۔ اس مضمون پر ایک صاحب نے یہ تبصرہ فرمایا کہ قطار بنانا یہودیوں کا طریقہ ہے۔ یہ تبصرہ اس منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ہمارے معاشرے کے ایک عام آدمی کے دل و دماغ میں رچ بس گئی ہے۔ اس سوچ میں ہم اپنے غلط اعمال کی کوئی نہ کوئی تاویل اپنے پاس رکھتے ہیں۔ چاہے وہ تاویل انتہائی نامعقول ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ سوچ ہے جو پہلے مرحلے پر خیر و شر کا شعور ختم کرتی اور پھر خیر کو شر اور شر کو خیر بنا دیتی ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تاہم جو لوگ کسی برائی کو برائی مانتے ہیں وہ بھی اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا نہیں کرتے کہ خرابی کے اس دھارے میں شامل ہونے کے بجائے اولین اصلاح کرنے والے بن جائیں۔ حالانکہ اگر کچھ لوگ ہمت کرکے آگے بڑھیں تو دوسروں کے لیے ایک اچھی مثال قائم ہوسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مزید لوگ آگے بڑھیں گے۔ کیونکہ ایک عام انسان لفظوں کی نہیں مثالوں کی پیروی کرتا ہے۔
مثلاً شادی کی تقریبات میں تاخیر سے ہر شریف آدمی نالاں ہے مگر کوئی آگے بڑھ کر اس معاملے کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ معمولی عذر کی آڑ لے کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ہمارے ایک عزیز دوست نے بڑی اچھی مثال قائم کی۔ انہوں نے اپنے بچوں کی شادی میں وقت کی پابندی کی یہ اعلیٰ مثال قائم کی ہے کہ کارڈ پر لکھے ہوئے وقت پر لازماً کھانا کھول دیا جاتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مہمانوں کی تو خیر ہے مگر سسرال والوں کا آپ کیا کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اگر وہ تاخیر سے آئیں گے تو میں انتظار کر کے ان کے ساتھ کھاؤں گا مگر ان کی وجہ سے وقت کی خلاف ورزی کر کے دوسروں کو تکلیف میں نہیں ڈالوں گا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اگر اصلاح کے معاملے میں انسان یکسو ہو اور ہمت کر لے تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ یہی وہ ہمت ہے جو ایک دفعہ کچھ لوگوں میں پیدا ہوجائے تو معاشرے میں خیر کا عنصر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔
ہمارا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اخلاقی معاملات کا مذہب سے کوئی تعلق محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اسے عیسائی یہودیوں کی کوئی بدعت سمجھتے ہیں۔ مذہب جو معاشرے اور مشکلات سے ٹکرانے کا سب سے بڑھ کر حوصلہ دیتا ہے ہمارے ہاں بے روح پوجا پاٹ اور بے معنی رسوم و رواج کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ مذہب کی کُل تعلیم یا تو اخلاقی نوعیت کی ہے یا ان کے نتائج اخلاقی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی وقت کی پابندی کے مسئلے کو لے لیجیے۔ وقت کی پابندی کرنا ایفائے عہد کی ایک شکل ہے۔ اب دیکھیے دین کی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔‘‘(بنی اسرائیل 17:34)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس میں عہد کی پاسداری نہیں اس کا کوئی دین نہیں‘‘(مسند احمد)
قرآن و حدیث کے یہ احکام بتاتے ہیں کہ ایک سچا مومن اخلاقی دنیا میں بھی اعلیٰ ترین انسان ثابت ہوتا ہے۔ اگر اخلاقی دنیا میں کسی کا رویہ درست نہیں تو وہ جان لے کہ اس کے پاس کوئی دین نہیں۔