برانڈز کی دوڑ ۔ ابویحییٰ
موجودہ دور کنزیومرازم کا دور ہے۔ اس دور میں لوگوں میں اشیاء کے بے دریغ استعمال کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس رجحان میں ایک نیا اضافہ مہنگی برانڈڈ اشیاء کی خریداری کا ہے۔ پہلے پہل تو لوگ قیمتی اشیائے تعیشات ہی کسی خاص برانڈ کی لیا کرتے تھے، مگر اب عام استعمال کی چیزوں جیسے لباس، جوتوں وغیرہ میں بھی لوگ برانڈڈ چیزیں خریدتے ہیں۔
تجارتی کمپنیوں کے پیش نظر برانڈ کا اصل مقصد تو اپنی ایک الگ شناخت قائم کرنا ہوتا ہے۔ تاہم رفتہ رفتہ برانڈ ایک معیار کی علامت قرار پاچکی ہے۔ اور اب دنیا بھر میں یہ اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ برانڈڈ پروڈکٹ عام اشیائے صرف کے مقابلے میں کافی مہنگی ہوتی ہیں اور اعلیٰ معیار کے ساتھ اونچی شان کا بیان بھی بن جاتی ہیں۔
برانڈز کا یہ تصور اپنے اندر ایک ممکنہ اخلاقی خرابی رکھتا ہے جس کی نشان دہی ضروری ہے۔ یہ اخلاقی خرابی اسراف، نمود و نمائش اور تکبر کی ہے۔ یہ وہ اخلاقی خرابیاں ہیں جو دنیا میں خرابی کے ساتھ آخرت میں جواب دہی اور خدا کے حضور گرفت کا سبب بھی بن جائیں گی۔
برانڈڈ چیزیں معیار کے ساتھ اپنے اندر مہنگی قیمت اور اظہار شان کا پہلو لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک شخص کسی برانڈ کو اس کے معیار یا اپنے اعلیٰ ذوق کی بنا پر استعمال کرتا ہو۔ ایسی صورت میں اس کے استعمال کرنے میں کوئی خرابی نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کے پیش نظر اصل مقصد اظہار شان ہے تو وہ تکبر کا مرتکب ہوگا۔ اور اگر وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مہنگی برانڈ خریدتا رہتا ہے تو اسراف کا مرتکب ہوگا۔ یہ دونوں بڑے اخلاقی گناہ ہیں۔ چنانچہ ہر شخص کو مہنگی برانڈڈ اشیاء خریدنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے پیش نظر اظہار شان یا دوسروں سے مقابلے کی کوشش میں اپنی گنجائش سے مہنگی چیز لینا تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ ایک گناہ بن جائے گا۔