بن سمجھے تلاوت، ایک منفی رویے کی اصلاح ۔ مولانامحمد تہامی بشر علوی
آپ سے یہ سنا کہ قرآن بن سمجھے پڑھنے سے اجر نہیں ملتا تو میں نے قرآن پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔ اب اس کا گناہ بھی آپ پر ہی ہے۔
عرض کیا : میرے ذمے یہ نہیں کہ خود ساختہ تراکیب سے کسی نہ کسی طرح آپ سے قرآن کہلوا دوں۔ میرے ذمے بس یہ ہے کہ بس یہ بتا دوں کہ خود خدا نے یہ قرآن کس مقصد کے لیے نازل فرمایا اور اس نے کس کو کس عمل کا اجر دینے کا بتا رکھا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ رب نے قرآن مجید کو تدبر اور ہدایت اخذ کرنے کے لیے بھیجا ہے کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں مومنین کو بن سمجھے پڑھتے رہنے کی ترغیب دی گئی ہو یا اس طرح پڑھنے پر اجر کی ضمانت دی گئی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی امت کو ایسی کوئی تعلیم نہیں دی جس سے یہ معلوم ہو کہ خدا عجمیوں سے محض تلاوت کو کافی جانتا ہے اور اسی پر اجر دینے کا فیصلہ کیے ہوئے ہے۔ ایسی صورت حال میں، میں خدا کی طرف سے ہرگز یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ بن سمجھے قرآن پڑھنے کی ترغیب دیتا یا اجر کی خوشخبری سناتا ہے۔ آپ اگر خدا اور اس کے دین کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو اس کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ اصل حقیقت جان کر آپ پڑھنا چھوڑ دیتے۔ یہ ایک دوسرا منفی اور غلط رویہ ہے۔
درست رویہ یہ تھا کہ آپ قرآن حکیم پر تدبر کی ترکیب بناتے اور سمجھ کر پڑھنے کا بندوبست کرتے۔ سوچیے اگر آپ عمر بھر بن سمجھے پڑتے رہے اور کل خدا یہ کہے کہ میں نے تو ایسی کوئی ترغیب نہیں دی تھی میں نے یہی کہا تھا کہ اس کو سمجھو اور اس سے ہدایت حاصل کرو۔ تب آپ کا جواب کیا ہو گا؟ میں اس وقت کے اس سوال کے جواب کو سامنے رکھ کر پھر یہی کہتا ہوں کہ خدا نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی کہ قرآن بن سمجھے پڑھنے کا رواج بنالیا جائے۔ اس کا مطالبہ یہی ہے کہ مومنین قرآن پر تدبر کی نگاہ ڈالیں اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی سنواریں اور خدا کے مطلوب انسان بن کر خدا کے انعام کے مستحق بن جائیں۔ دین کو سرسری لینا اور اسے رسمی امور بجا لانے تک محدود کر لینا انسانوں کا نکالا ہوا چور دروازہ ہے۔ نفس و ابلیس کی اس سازش کا سامنا ترک قرآن سے نہیں بلکہ اس کی آیات میں تدبر کر کے کیا جانا چاہیے۔ ایسے میں یہ مطالبہ نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہمیں تدبر کی ذمہ داری سے آگاہ نہ کیا جائے بلکہ یہ مشورہ کیا جانا چاہیے کہ ہم خود ساختہ رسمی تلاوت سے تدبر کی تلاوت کی طرف کیسے آ جائیں، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اصل طریقہ تھا۔