بات گو ذرا سی ہے، بات عمر بھر کی ہے ۔ فرح رضوان
"پڑھ لے یار، تھوڑا دل لگا کر بھی پڑھ لے، اور کتنے کوئی دن لگانے ہیں، تو نے سبق پکّا کرنے میں! ہیں۔ ۔ ۔ ؟”
فیملی روم میں رکھے ڈیسک ٹاپ کے ذریعے قاری صاحب اور نو عمر، گورا بابو ٹائپ بیٹے کے ہر روز سکائپ پر اسی قسم کے مکالمے شروع۔ ساتھ ہی لگے کچن میں دن بھر کی جاب سے تھکی ٹوٹی ماں، کچھ ہی دیر قبل واپس آکر تیزی سے کام نمٹانے میں مصروف، بار بار آکر کبھی بیٹے کو پیار سے قرآن کا سبق پڑھنے پر ابھارتی ہے، تو کبھی زِچ ہو کر آنکھیں دکھاتی ہے، اور ہر روز کچھ منٹ کی کلاس یونہی رینگتی ایک ماہ پورا کرتی ہے، اور والدین قاری صاحب کے اکاؤنٹ میں فیس جمع کروا دیتے ہیں۔ یہ ہے کسی بھی غیر مسلم ملک میں رہنے والے ایک عام پاکستانی فیملی کے بچوں کا قران سے رابطہ۔
جبکہ پاکستان کا معمول یہ ہے کہ بچہ ابھی ابھی سکول میں دن بھر کی انرجی لگا کر، بھوکا پیاسا تھکا ہوا گھر لوٹا ہے، قاری صاحب کے آنے کا وقت سر پر ہے، روز کی جھک جھک شروع؛ ’’مما آج چھٹی کرا دیں پلیز، میرا ٹیسٹ تھا میں نے قاری صاحب کا سبق یاد نہیں کیا۔‘‘ اس پر ماں کی زبردست جھاڑ؛ ’’ٹی وی دیکھنے، فون پر کھیلنے کے لیے وقت تھا، اتنے سے سبق کے لیے وقت نہیں تھا!‘‘ بچے کے گلے میں پھنسا آنسوؤں کا گولہ، غم کی شدت سے رندھی آواز؛ مما پلیز نا! پلیز۔ ۔‘‘ ڈنگ ڈونگ۔ ۔ ۔ ڈور بیل (بظاہر بجتی ہے) لیکن بچے کے دل پر گویا طبل جنگ بج گیا ہو۔
قاری صاحب وہی سلام کرتے گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تم کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں تم امن میں ہو، لیکن! بیٹھتے ہی بچے کو حقیر لہجے میں ڈانٹ ڈپٹ، جھڑکی، دھمکی کا ماحول گرم، یہی کچھ حال، اکثر اپنے اپنے گھروں میں پڑھانے والی کم عمر یا عمر رسیدہ خواتین کا بھی ہوتا ہے کہ وہ ان ’’شریر‘‘ بچوں پر غصے میں بِھنّا اٹھتی ہیں، ’’بچے بھی ایسے ڈھیٹ‘‘ کہ سمجھ کر ہی نہیں دیتے، حتی کہ پڑھانے والے کا اخلاق ہتّھے سے اکھڑ نہ جائے، چیخ چیخ کر گلہ دکھ نہ جائے، اعصاب شل نہ ہو جائیں۔
آپ کو پتہ ہے نا! کہ کسی بھی سپورٹس میں کامیابی کی دو بہت بڑی وجوہات میں سے، پہلی اپنے ہی کھیلے گئے کھیل کی وڈیو کو بار بار دیکھ کر اپنی خامیاں تلاش کر کے ان کا سدباب کرنا، دوسرا کسی بھی بہترین کھلاڑی کی کارکردگی کو بار بار دیکھ کر اس سے سبق لینا شامل ہے۔ کھیل کی نسبت عمر بھر کی بات یقینا، سدھار کی کہیں زیادہ مستحق ہے۔ تو اب تک جو بھی ماحول آپ نے ریکارڈ کیا، اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا؟ اور باذن اللہ، ہماری ذرا سی محنت، اور تھوڑے تدبر سے کیا کیا بہتری لائی جاسکتی ہے؟
والدین یا اساتذہ میں سب سے بڑی خامی تحمل، حکمت اور اخلاق کا فقدان؛ سوچیں تو سہی کہ وہ بچہ جو اگر باہر کسی ملک میں پڑھ رہا ہے جس سے دن بھر اس کی ٹیچر، سویٹ ہارٹ اور ہنی سے کم طرز تخاطب پر بات ہی نہیں کرتی، گڑ اور گلاب جامن میں لپیٹ لپیٹ کر جو چاہتی ہے وہ عقیدہ دماغ میں بھر دیتی ہے کہ بے شک آپ ساری زندگی بچے کو آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کا یقین دلاتے رہیں، وہ ڈاروِن کے فلسفے کا معتقد بنا رہے گا۔ محبت ایسا نغمہ ہے، ذرا بھی جَھول ہو لَے میں، تو سُر قائم نہیں رہتا۔
جس دین نے جنگ کی حالت میں بھی ہر طرح سے اخلاق کی پاسداری کا حکم دیا ہے۔ چھوٹوں پر شفقت، یا بڑوں کی عزت نہ کرنے پر اتنی بڑی بات کہ وہ ہم میں سے نہیں! اس دین کے پیروکار، بچوں کو قرآن، بصورت ناظرہ ہو یا حفظ یا پھر اسلامیات ہی، آخر کس اخلاقی سطح پر سکھا رہے ہیں؟
فقط باتیں اندھیروں کی، محض قصے اجالوں کے
چراغ آرزو لے کر نہ تم نکلے نہ ہم نکلے
تلخی، خوف، جبر، غصہ یا تضحیک میں سے کوئی ایک رویہ بھی کارگر نہیں ہے اس جنگ میں۔ ہیں! یہ اچانک سے جنگ کا ذکر کیسے آگیا؟ دراصل جب تک ہم اس بات کو ہر دم، ہر قدم پر یاد نہیں رکھیں گے کہ ازل سے شیطان ہمارا دشمن ہے اور ہر رخ ہر زاویہ سے جنگی محاز پر کمر بستہ بھی، تو اس وقت تک ہم کبھی بھی کوئی بہتر اور پختہ لا ئحہ عمل تیار نہیں کر پائیں گے۔ اس سلسلے میں فوری طور پر والدین اور اساتذہ کو بحیثیت ٹیم، کام کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے۔
مانا کہ اکثر بچے جھوٹ بھی بولتے ہیں، ڈرامہ بھی کرتے ہیں، لاپرواہی بھی، چیٹنگ بھی، لیکن جان لیں کہ ایک جانب ان سے یہ سب کچھ شیطان کروا رہا ہے، جس سے فی الحال وہ لاعلم ہیں اور دوسری جانب آپ کا شیطان ہے جو، دن بھر کا ہی نہیں بلکہ عمر بھر کا تمام تر غصہ ان پر الٹ دینے کا مکمل جواز پیش کر رہا ہے۔ لیکن! سزا واجب ہو جانے پر بھی بچے کو معاف کر کے ضرور دیکھئے گا۔ اس کی کارکردگی دگنی چوگنی ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات غصے کے تلخ گھونٹ کو صبر سے پی جانا ایک نہیں کئی شیطانوں پر آپ کی فتح ثابت ہوگا۔ اٹک اٹک کر پڑھنے پر دوہرا اجر ہے تو ایسے فرد کو صبر سے سکھانے پر خود ہی سوچیں کیا اجر ہوسکتا ہے! تو خواہ آپ استاد ہیں یا والدین، (ان شا اللہ) کامیابی بھی آپ کی، اجر بھی آپ کا، برکت آپ کے حصے میں، اور عزت آپ کا نصیب ٹھہرے گی۔