بڑی لکیر ۔ ابویحییٰ
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے؟‘‘
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘، کلاس کے سب سے ذہین طالبعلم نے آخرکار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں۔‘‘ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ طلبا نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں اپنا موازنہ دوسروں سے کرکے ان سے آگے بڑھنا انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔ اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو مضبوط، طاقتور اور بڑا بنانے پر توجہ دی جائے۔ دوسرے اس شکل میں بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں انسان خود بڑا ہوجاتا ہے۔
دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑھنا، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل طریقہ ہے۔ فرد اور قوم دونوں کے لیے دیرپا اور مستقل ترقی کا یہی واحد راستہ ہے۔